Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں فلسفہ بھی پڑھایا جائیگا

عبداللہ بن بجاد العتیبی۔الشرق الاوسط
کہتے ہیں کہ اگر انسانی ذہن تفکیرسے آشنا ہو جائے تو ہر طرح کی انتہا پسندی دماغ سے نو دو گیا رہ ہو جاتی ہے۔اگر انسان کو یہ پتہ چل جائے کہ علم ، زندگی اور فکر و نظر کے حتمی نتائج کا دائرہ بیحد محدود ہے تو وہ اپنے افکار و نظریات اور معاملات میں توازن پیدا کرنے لگے گا ۔ کہتے ہیں کہ فلسفہ تمام علوم کی ماں ہے ۔ اقوام عالم نے فلسفے کے سہارے ہی تاریخ کے مختلف ادوار میں تمدن تخلیق کئے اور فلسفے ہی کی بنیاد پر عروج و ارتقاء کی منزلیں طے کیں۔
فلسفہ ایک طرح سے سوالات سازی اور ذہن کی چٹانوں پر انمٹ نقوش مرتسم کرنے کی انسانی صلاحیت کا دوسرا نام ہے ۔ 
سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے یہ فیصلہ سنایا کہ اس کی وزارت تعلیم ثانوی اسکولوں میں فلسفے کا مضمون شامل کر رہی ہے ۔ سعودی وزارت تعلیم اپنا یہ نصب العین پورا کرنے کیلئے اساتذہ تیار کر ے گی ۔ برطانوی کمپنی  کے ماہرین سعودی اساتذہ کو اسکولوں میں فلسفے کا مضمون پڑھانے کے مثالی طور طریقے سمجھائیں گے۔سعودی وزارت تعلیم کا یہ فیصلہ صحیح جہت میں عظیم الشان اقدام ہے ۔ 
نئے سعودی عرب نے بہتر مستقبل کے حوالے سے بہت سارے کام کر لئے ہیں ۔ فلسفے کے مضمون کی تعلیم کا فیصلہ تاریخی اقدام ہے اس پر سعودی عرب تحسین کا مستحق ہے ۔ اس کی بدولت سعودی شہریوں کی ذہنی توانائیاں اوران کی فکری مہارتیں نکھریں گی ۔ ان میں علمی اور عملی امکانات ابھریں گے ۔ فلسفے کے مضمون کی تعلیم کا فیصلہ سعودی وژن 2030ء کے قائد سعودی ولیعہد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرے گا ۔ یہ سعودی وژن 2030ء سے اپنے حجم میں کسی طرح کم نہیں ۔
اس اہم اقدام نے کئی عشروں سے مملکت میں جاری اس بحث کا خاتمہ کر دیا جو روایتی فقہی تصور کے علمبرداروں کے درمیان چل رہا تھا۔دراصل کئی صدیوں سے فلسفے کی بابت روایتی فقہا کے درمیان شکوک و شبہات کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا عصر حاضر کے فقہا کو یہ چیز ورثے میں ملی تھی۔روایتی فقہا فلسفے کو دین کا دشمن ، اسلام کا قاتل اور اس کا حریف مان رہے تھے۔ اس حوالے سے بہت سارے فتوے اور کتابیں تصنیف کی گئیں ۔ اکثر معروف حنبلی فقیہ ابن تیمیہ کی آراء سے ماخوذ تھیں ۔ابن تیمیہ فلسفے کے مخالف تھے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ وہ خود فلسفے ، علم منطق اور علم الکلام کے بڑے اسلامی اسکالر تھے ۔ ان کے شاگردوں نے فلسفے کی تعلیم کیلئے ایسی شرائط مقرر کیںجنہیں پورا کرنا محال ہے۔ شرائط مقرر کرنے سے ان کا مقصد فلسفے سے استفادہ کی بجائے اس پر تنقید کرنا تھا۔
آگے چل کر سعودی عرب میں سیاسی اسلام کی نمائندہ جماعتوں نے قدم رکھا ۔ ان میں سرِ فہرست ’’الاخوان المسلمین ‘‘کی جماعت اور اس کے پیروکار تھے ۔ یہ پانچویں عشرے کے اواخر اور اس کے مابعد کا قصہ ہے ۔ الاخوان کی مملکت آمد پر سعودی عرب کے تعلیمی اور تربیتی نصاب میں تبدیلی آئی ۔ ان عناصر نے سعودی عرب کے بند روایتی فقہ سے ٹکر لینے کی کوشش  مختلف طریقے سے کی ۔ ان لوگوں نے اسلامی شریعت کی تعلیم دینے والے بعض کالجوں میں ’’اسلامی ثقافت ‘‘کا مضمون شامل کرایا۔ اس کا فلسفے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی فلسفیانہ تفکیر سے اس کا کوئی رشتہ ناتہ تھا ۔ البتہ  معاشرے اور ریاست کے ارتقاء و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنیوالے فقہ کے ساتھ گھمسان کے معرکے میں یہ مضمون معاون ثابت ہوا ۔ اس مضمون کی بدولت ریاست کے فیصلہ سازوں کو مقامی فقہ کا سامنا کرنے کے سلسلے میں فقہی تعاون حاصل ہوا ۔ اس کے اپنے اسباب تھے ۔ 
سعودی عرب میں علماء اور فقہا کا کردار اسی طرح داعیان کرام کا کردار فطری حجم سے بڑھا ہوا تھا۔داعی ، فقیہ اور عالم اپنا اثر و رسوخ زیادہ پیدا کئے ہوئے تھے جبکہ دانشور اور فلسفی حضرات دیوار سے لگے ہوئے تھے ۔ 
روایتی فقیہ اور بیداری پیدا کرنیوالے داعی (اخوانی) کے کردار میں بھی ہمیں فرق کرنا ہو گا ۔روایتی فقیہ ریاست کے حامی ہوتے ہیں اگر انہیں قائدین کی کوئی غلطی نظر آتی ہے تو وہ خاموشی سے اس کی نشاندہی کر کے حاکم وقت کواصلاح حال کی ترغیب دیتے ہیں جبکہ اخوانی کا معاملہ مختلف ہے وہ اپنا ایک سیاسی اور مذہبی پروگرام بنائے ہوتا ہے ۔ یہ خود ریاست کے نظام کا متبادل ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخوانی اقتدار پر مکمل یا جزوی قبضے کیلئے اپنے افکار و نظریات کو پسِ پشت ڈالنے پر بھی آمادہ رہتا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اخوانی ہو یا روایتی فقیہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود دیگر افکار کی مخالفت پر کمر بستہ رہے اس پر فریقین متفق تھے ۔ 
چند برس قبل سعودی نوجوانوں نے ریاض میں ادبی انجمن کے ماتحت فلسفے کا ایک گروپ قائم کیا تھا ۔ اس کی بڑی مخالفت ہوئی  تھی۔ ان میں سے بعض نوجوان آج اہم اسکالر اور دانشور کے طور پر جانے جا رہے ہیں ۔ بلاشبہ فلسفے کے عروج اور اقوام عالم کی ترقی کارشتہ ایک دوسرے سے چولی دامن کا ہے ۔ مملکت میں فلسفے کی تعلیم سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
 

شیئر: