Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خبر لیجے زباں بگڑی

***وسعت اللہ خان ***
ڈی این اے 2طرح کا ہوتا ہے۔ایک وہ جو آپ کے نسلی و جسمانی شجرے کا ڈاکخانہ ہے دوسرا ڈی این اے لسانی ہے جو آپ کے تہذیبی پس منظر کا چٹھا کھول کے رکھ دیتا ہے۔زبان کھلی نہیں کہ آپ کھل گئے۔اس لسانی ڈی این اے کی گواہی میں قرآن کہتا ہے بولو کہ پہچانے جائو۔۔۔ بچپن سے ہم میں سے ہر کوئی سنتا آ رہا ہے، آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے ۔۔۔زبان کا گھائو تلوار کے گھائو سے زیادہ مہلک ہے ، چھٹانک بھر کی زبان تمہیں جنت میں بھی لے جا سکتی ہے اور جہنم کے دروازے بھی کھول سکتی ہے۔۔۔لوگوں سے احسن طریقے سے بات کرو ۔تلخ سے تلخ بات بھی شیریں انداز میں کہی جا سکتی ہے گر کہنے کا سلیقہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
مگر  بولی اور زبان (لینگویج) میں کوئی فرق ہے یا یہ ایک ہی شے کے 2 نام ہیں ۔شاید کوئی بھی بولی صدیوں کے نچوڑ سے تہہ در تہہ وجود میں آتی ہے۔جیسے لاوے سے پہاڑ بننے کا عمل۔بولی کے ڈھانچے میں ، مذکر ، مونث ، واحد جمع ، روزمرہ محاورہ غرض سب کچھ ہوتا ہے مگر ضروری نہیں کہ بولنے والے کو یہ بھی علم ہو کہ فلاں شے مذکر کیوں ہے ۔فلاں لفظ اپنا وجود رکھنے کے باوجود سائلنٹ کیوں ہے جیسے بالکل کا الف۔فلاں محاورے کا پس منظر کیا ہے۔
یہ راز تب کھلتے ہیں جب واضح انداز میں مرتب کردہ گرائمری قواعد و ضوابط کسی بولی کو باقاعدہ زبان کا روپ دیتے ہیں ۔گویا بولی کا آئین برطانوی آئین کی طرح غیر تحریر شدہ ہے مگر جب اسے گرائمر میسر آجاتی ہے تو گویا صحتِ زبان کو قواعدو ضوابط کی شکل میں ایک خوبصورت اور پائیدار گھر کی چھت مل جاتی ہے ۔یعنی بولی وہ خام مال ہے جسے اگر گرامر کے ڈبے میں ڈال دیا جائے تو وہ پروڈکٹ وجود میں آتی ہے جسے ہم لینگویج کہتے ہیں۔
 ایک لفظ ہے جذبہ ۔اس کی جمع ہے جذبات لیکن بعض لوگ اتنے جذباتی ہو چکے ہیں کہ وہ جذبات کو بھی واحد گردانتے ہوئے اپنے جذباتوں کے اظہار سے باز نہیں آتے۔جیسے کئی بالی وڈ گانوں میں آج کل جذباتوں کی بہار ہے۔یہاں گرامر کا کوڑا حرکت میں آتا ہے اور جذباتوں جیسے مکروہات کی سرکوبی کرتے ہوئے زبان کے ڈھانچے کو جہالت کی پھپوند سے بچاتا ہے مگر سیلابِ جہالت اتنی شدت کے ساتھ تمام بند توڑ رہا ہے کہ مجھے تو اب گرائمر کے قواعد بھی اتنے ہی با اختیار لگے ہیں جتنے کہ ہمارے عوام۔
کبھی کبھار ہمیں اپنے قیمتی فالتو وقت سے فرصت ملے تو پرانے اخبارات کی فائلیں یا آل انڈیا ریڈیو ، ریڈیو پاکستان ، پی ٹی وی ، حتیٰ کہ بی بی سی اردو سروس کے پرانے پروگرام کھوجنے میں کوئی حرج نہیں۔اگر آپ واقعی یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ایک معیاری اور قواعد و ضوابط کے عرق سے نتھری زبان پڑھنے اور سننے میں کیسی لگتی ہے ۔وجہ بس اتنی سی تھی کہ پرانے صحافی و صداکار و ناظم  اپنی مسلسل تربیت کے سبب خوب واقف تھے کہ اسٹوڈیو یا نیوز روم سے باہر کی بولی بھلے کچھ بھی ہو مگر اسٹوڈیو کے اندر جو زبان استعمال ہوگی یا خبر و مضمون تخلیق کرنے والے قلم سے جو حرف نکلے گا وہ عام عوام کے لئے چونکہ لسانی سند کا درجہ رکھے گا لہٰذا اسے تمام لسانی علتوں اور بازارو آلائشوں سے پاک اور آئینِ گرامر کے تحت ہونا چاہئے۔ 
یہ بات درست ہے کہ صحافتی زبان مسجع و مقفع لسانی روغنیات سے پاک ایک زود ہضم اور آسان درجے کی ہونی چاہئے تاکہ صحافت کا بنیادی مقصد یعنی ابلاغِ عامہ ممکن ہو سکے۔
لسانی چوکسی کی کمزوری کے سبب وقت کے ساتھ ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ ابلاغ کے نام پر بنیادی قواعد سے انحراف کو برداشت کرتے کرتے آج یہ مرحلہ آن پہنچا ہے کہ زبان اور بولی کا فرق تو جو مٹا سو مٹا مگر شرفا کی بولی اور بازاری بولی کا فرق بھی خود کشی کر چکا ۔مثلاً ایک لفظ ہے بالمشافہ ۔اب نیوز روم میں بالمشافہ نہ کوئی سمجھتا ہے نہ برتتا ہے ۔کوئی برتنے کی جرأت بھی کرے تو اسے پرانے زمانے کا کھڑوس سمجھا جاتا ہے۔ہاں بالمشافہ ملاقات کے بجائے  ون ٹو ون میٹنگ چپراسی سے ایڈیٹر تک سب کی سمجھ میں فورا آجاتی ہے اور اسے ابلاغ تصور کر لیا جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ فی زمانہ آپ مجرموں کی تلاش کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا جائے گا  جیسے جملے برتیںمگر یہ بھی تو نہ نشر کریں کہ وزیرِ اعظم نے شمالی وزیرستان میں فوجی کاروائی کے لئے او کے کا سگنل دے دیا ۔ ایسی نام نہاد انگریزی اصطلاح برتنے کا بھی کیا فائدہ کہ انگریز بھی سنے تو لاعلمی میں سامنے والے کا گلا گھونٹ دے۔آپ زبان کو اپنی مرضی سے لنگوٹ بندھوا سکتے ہیں ، شلوار قمیض پہنوا سکتے ہیں یا تھری پیس سوٹ میں بھی جکڑ سکتے ہیں مگر آپ کو یہ اجازت کس نے دی کہ آپ زبان کو لنگوٹ کسوا ، کرتا پہنو اور اس کرتے پر ٹائی بندھوا اسے فخریہ پیش کش کے طور پر ابلاغ کے اکھاڑے میں اتار دیں۔
زبان کو بولی اور بولی کو داشتہ سمجھنے کے سبب نیوز روم اور نشرگاہ میں جو ابلاغی قیامت ٹوٹ رہی ہے ۔شائد اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہو کہ اب گھروں میں بچوں کی لسانی روک ٹوک کا رواج ختم ہو چکا ہے۔دادا دادی کی تو چلتی نہیں لہٰذا جدید والدین بچے کو طہارت یا آب دست کا طریقہ سکھانے کے بجائے پوٹی دھونا سکھا رہے ہیں اور ہاتھ دھلوانے کے بجائے ہینڈز واش کروا رہے ہیں ۔چنانچہ زبان کا ہینڈز اپ ہونا تو بنتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کے ہاتھوں تیار ہونے والی یہ وہ بدقسمت نسل ہے جس کا بیشتر علم بصری یا مشاہداتی نہیں بلکہ سماعی ہے یعنی اگر یہ نسل بہری ہوتی تو بالکل بے بہرہ ہوتی۔اسے کہتے ہیں لسانی طوائف الملوکی مگر طوائف الملوکی کی اصطلاح بھی آج کتنے لوگ سمجھتے ہیں؟
 

شیئر: