اگر ٹرمپ ایران سے مصالحت کرلیں تو کیا ہوگا؟
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
تمام امکانات کو مدنظر رکھ کر سوچنا اور غور کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ اگر ایرانی حکومت نے امریکہ کو پسپائی پر آمادہ کرنے اور مصالحت پر قائل کرنے کے لئے ایسی ترغیبات دیدیں جنہیں دیکھ کر امریکہ ایران سے مصالحت کرلے تو ایسی صورت میں ہم ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر پہنچ جائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ وہی منظر نامہ ہمارے سامنے ہوگا جو سابق امریکی صدر باراک اوباما کے عہد صدارت میں ہمیں دیکھنے کو ملا تھا۔اوباما کے عہد میں ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ بہت زیادہ سخت اقدامات کئے گئے تھے تاہم ایران نے درپردہ امریکہ کو 2010ءمیں مذاکرات کی ایک پیشکش کی جس کا سلسلہ 3 برس سے زیادہ مدت تک جاری رہا۔ اسکے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا اس نے امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی اسرائیل سمیت سب کو چونکا دیا تھا۔کیا اوباما کے عہد صدارت کا منظر نامہ موجودہ امریکی حکومت بھی دہرا سکتی ہے؟ہمیں خفیہ معاہدے کی اطلاع دے کر اچنبھے میں ڈال سکتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہم مذکورہ تلخ تجربات کے بعد امریکہ کے سیاسی پروگرام پر بھروسہ کیونکر کریں اوراس کے اتحادی کیوں بنیں؟
ہمیں اپنے علاقے میں بعض لوگوں کے تجزیوں کے برعکس طریقے سے سہ طرفہ تعلقات کو سمجھنا ہوگا۔ایرانی حکومت کے ساتھ ہمارا اختلاف حقیقی ہے۔ یہ امریکہ کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ۔ ایران اس سے کہیں زیادہ ہمارے لئے پرخطر ہے جتنا کہ وہ امریکہ کیلئے خطرہ ہے۔ ایران کے آیت اللہ نظام کےساتھ تنازع اسلئے نہیں کہ امریکہ ہم سے ایران دشمنی کا طلب گار ہو اور ہم اسکی تائید و حمایت کررہے ہوں بلکہ جب سے آیت اللہ خمینی ایران میں برسراقتدارآئے ہیں تب سے ہمارے خلاف ایران نے جو عداوت والی پالیسی اپنائی تھی اور اسکا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہے تب سے ایران کے ساتھ ہمارا عداوت کا رشتہ چل رہا ہے۔ آیت اللہ خمینی نے اپنا انقلاب خطے کے ممالک کو برآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کا بگل بجایا تھا۔ ایران کی یہ پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایران نے اپنی اس معاندانہ پالیسی کے پہلو بہ پہلو عسکری اقدامات بھی کئے اور گزشتہ 4 عشرو ں کے دوران ہمارے خلاف دہشتگردانہ حملے بھی کئے لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارا اتحاد خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کیساتھ ہمارا سمجھوتہ کوئی بغیر سوچی سمجھی مہم جوئی ہو۔وجہ یہ ہے کہ ہم نہ ملائیشیا ہیں اور نہ ہی اسپین یعنی ہم ایران کے حوالے سے کوئی ایسا ملک نہیں جو ایران کی چاند ماری سے دور ہو۔ ایران کے حملوں کی زد میں نہ ہوں۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے ہم سے منہ موڑ کر ایران کیساتھ مصالحت کرلی تب بھی ایران کیساتھ سعودی عرب سمیت خطے کے متعدد ممالک کا جھگڑا ایران کی مبینہ پالیسی کی وجہ سے جاری و ساری رہیگا۔ سعودی عرب کی غیر متزلزل علاقائی پالیسی بین الاقوامی طاقتوں اور علاقائی ممالک کیساتھ مخالف اتحاد قائم کرنے کی ہے۔ سعودی عرب کی پالیسی ایران کے حوالے سے توازن پیدا کرنے کی ہے۔ ایران کیساتھ یہ کشمکش صرف اس صورت میں ہی ختم ہوسکتی ہے جب ایران کے حکمراں خطے کے ممالک کو ہدف بنانے والے اپنے خارجی منصوبے سے دستبردار ہوجائیں۔ مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ بات مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے۔ سعودی عرب او رایران کے تعلقات2 تجربوں سے گزرے۔ یہ تجربے تعلقات کو بہتر بنانے کےلئے تھے۔ ان کے تحت سفارتی اور اقتصادی تعلقات بحال کئے گئے۔ ثقافتی رشتے بھی قائم کئے گئے مگر دونوں بار یہ کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ ایرانی حکمرانوں نے سعودی عرب کے اندر معاندانہ سرگرمیاں کیں اور عدم مداخلت کے جو معاہدے کئے تھے انہیں پامال کیا۔
آج کل امریکی تہران کے خلاف بڑا اتحاد بنا رہے ہیں۔اردن کے دارالحکومت عمان میں منعقدہ کانفرنس وارسا کانفرنس کا پیش خیمہ ہے۔ یہ بین الاقوامی مشن کے حوالے سے اہم اقدام ہے۔ یہ سارے چکر ایران کے حکمرانوں پر دباﺅ ڈالنے اور انہیں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کیلئے چلائے جارہے ہیں۔ انہی سرگرمیوں میں شام، یمن میں خطے کے ممالک کے خلاف ایران کی سرگرمیوں کی ناکہ بندی بھی ہے۔یہ بات بعید از امکان ہے کہ ایرانی حکمرانوں کو اپنی خارجہ پالیسیاں اور داخلی غلط تصرفات کا سلسلہ ترک کرنے پر آمادہ کیا جاسکے گا البتہ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس قسم کے دباﺅ جن میں اقتصادی پابندیاں شامل ہیں، ایران کو اپنی سرگرمیاں بند کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ممکن ہے اس قسم کے دباﺅ کے باعث ایران مخدوش علاقوں سے انخلا ءکرلے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایران اپنے یہاں کوئی بدلاﺅ لائیگا یا ایرا ن کا نظام حکومت اپنے اندر تبدیلی لانے پر راضی ہوگا، اسکا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ممکن ہے کہ ایرانی عوام کوئی ایسا کام کر بیٹھیں جس سے بڑی طاقتیں قاصر رہی ہیں اور کئی عشروں سے انکی کوششیں بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭