سات منتخب وزرائے اعظم کو احتساب کا سامنا
جمعرات 21 فروری 2019 3:00
اعظم خان ۔ اردو نیوز ، اسلام آباد
پاکستان کا قومی احتساب کا ادارہ (نیب) گزشتہ کچھ ماہ سے زیادہ متحرک ہوا ہے جس نے اس وقت نہ صرف دو سابق صدور بلکہ ملک کے تمام منتخب حیات وزرائے اعظم کے خلاف تفتیش کر رکھی ہے۔ نیب نے کچھ بڑے سیاسی رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات پر انکوائری شروع کر رکھی ہے ،وہیں گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔
-
مشرف اور زرداری کا احتساب
سابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے خلاف بھی نیب تفتیش کر رہا ہے جس میں آصف علی زرداری کے خلاف جعلی بنک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ جنرل ریٹائرڈ اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں نیب کو مطلوب ہیں۔
-
سابق اور موجودہ وزیراعظم کے خلاف تحقیقات
ظفراللہ خان جمالی کے علاوہ اس وقت پاکستان کے تمام ہی منتخب حیات وزرائے اعظم سے مختلف الزامات میں تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ان میں موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں جنھوں نے نیب کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔وزیراعظم عمران خان کو سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال پر تفتیش کا سامنا ہے جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف پانامہ ٹرائل کے بعد آف شور کمپنیوں، آمدن سے زائد ذرائع اور اسٹیل ملز رکھنے پر جیل بھیج دیے گئے۔
شاہد خاقان عباسی کو قطر ایل این جی معاہدے میں شفافیت سے متعلق تفتیش کاسامنا ہے۔ یہ الزام اس وقت سے متعلق ہے جب وہ نوازشریف کی کابینہ میں وزیر پٹرولیم کی حیثیت میں موجود تھے۔
راجہ پرویز اشرف کو بجلی کے منصوبوں رینٹل پاور پروجیکٹ میں بدعنوانی جیسے ریفرینس کا سامان ہے جبکہ یوسف رضا گیلانی پر نیب نے ریفرنس دائر کیا کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سرکاری اشتہارات مہم میں اپنی ایک من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دیا۔
پرویز مشرف کے دور کے وزیراعظم شوکت عزیز نیب کو آمدن سے زائد اثاثوں اور متبادل توانائی بورڈ میں من پسند کنسلٹنٹ کی تقرری ریفرینس میں مطلوب ہیں۔
نیب نے حکومتی اتحادی چوہدری شجاعت حسین کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بارے تفتیش شروع کردی ہے۔
نیب نے تحریک انصاف کے دورمیں چند سیاستدانو ں کو جیل کا منہ دکھایا ہے جن میں زیادہ تعداد پاکستان مسلم لیگ نواز کی ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے رہنما اس وقت زیر تفتیش ہیں تاہم قیدیوں کی تعداد اعتبار سے حکمراں جماعت کا نمبر تیسرا ہے۔ آمدن سے زائد ذرائع کاالزام تقریباً ہر ہی سیاستدان پر عائد کیا گیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پرالزام ہے کہ وہ3بار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے انہوں نے قواعدسے ہٹ کر من پسند کمپنیوں کو ٹھیکے دیے۔ آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم منصوبے میں بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا بھی الزام عائد کیا گیاہے۔ یاد رہے کہ یہ گرفتاری ایک ایسے وقت میں عمل آئی جب اپوزیشن جماعتیں شہازشریف کو پارلیمنٹ کی سب سے طاقتور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن لیڈر کو بدعنوانی کے مقدمات کاسامنا ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی اثنا میں خبر ملی کہ نیب نے صاف پانی کیس میں شہباز شریف کو تفتیش کے لیے بلایا اور پھر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کیس میں حراست میں لے لیا۔
اپوزیشن کے احتجاج کے بعد حکومت شہبازشریف کو پی اے سی کی صدارت دینے پر رضامندہوگئی۔ حال ہی میں لاہورہائی کورٹ نے شہبازشریف کوضمانت پر رہائی دی۔
-
خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق
سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق اور ان کے چھوٹے بھائی سابق صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو نیب نے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی مقدمے میں بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ خواجہ سعد رفیق نے ہاؤسنگ سوسائٹی میں شیئرز کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ اس اسکیم میں ان کے کچھ مکان ہیں اور زمین ہے۔
-
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی
سراج درانی سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں۔ ان کی گرفتاری پر سابق صدر نے ردعمل کا اظہار بھی کیا۔سراج درانی ایک دوست کی دعوت پر اسلام آباد میں آئے ہوئے تھے کہ کراچی نیب کے ساتھ مل کر راولپنڈی نیب نیانہیں گرفتار کر لیا۔ سراج درانی نے اردو نیوز کو بتایاکہ انہیں نیب کی جانب سے ایک سوالنامہ دیا گیا تھا جس کا جواب انہوں نے دے دیا تھا۔ نیب نے گرفتار سے قبل انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا اور نہ مزید تفتیش کے لیے بلایا گیا۔ سراج درانی پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیس ہے۔
نیب کے سینیئر وزیر علیم خان کو نیب نے دوران تفتیش حراست میں لیا تو انہوں نے وزارت سے استعفی ٰ دے دیا۔ علیم خان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام کے علاوہ پانامہ لیکس میں ایک آف شور کمپنی کے مالک ہونے کا بھی الزام بھی ہے۔ اب علیم خان کو بتاناہوگا کہ ان کی آمدن جائز ذرائع سے حاصل کردہ ہے۔