یہ 2017 کی بات ہے جب ایک انڈین خاتون ڈاکٹر عظمیٰ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر آئیں اور انہوں نے وہاں پاکستانی شہری طاہر علی سے کورٹ میرج کی جس کے بعد معاملات بگڑ گئے اور یہ خاتون بونیر سے اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن جا پہنچیں۔
اسی حوالے سے انڈیا کی ایک فلم ’دی ڈپلومیٹ‘ 14 مارچ کو سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی ہے اور کچھ عرصے بعد یہ نیٹ فلکس پر بھی ریلیز ہوگی جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور خاص طور پر ضلع بونیر کے عوام غصے میں ہیں۔
مزید پڑھیں
انڈین اداکار جان ابراہم کی یہ فلم جہاں ایک طرف سفارتی جنگ اور ڈاکٹر عظمیٰ کی پاکستان میں مبینہ طور پر جبری شادی کے المیے کو پردے پر لے آئی ہے تو وہیں بونیر کے عوام اسے اپنی تاریخ کو مسخ کرنے کا پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ڈاکٹر عظمیٰ کو بونیر کے رہائشی طاہر علی نے کوالالمپور (ملائیشیا) سے اغوا کر کے بونیر کے پہاڑوں میں قید رکھا تھا؟
یا یہ ایک ایسا سکرپٹ ہے جس میں محبت کی کہانی کو سفارتی چال میں بدل کر پروپیگنڈا کا رنگ دیا گیا ہے؟
اس فلم میں جان ابراہم انڈین سفارت کار (ڈپلومیٹ) جے پی سنگھ کا کردار نبھا رہے ہیں جبکہ اداکارہ سعدیہ خطیب ڈاکٹر عظمیٰ کے کردار میں نظر آرہی ہیں۔
بونیر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن، صحافی اور سوشل میڈیا صارفین اس فلم کا ایک منظر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں جس میں جی پی سنگھ (جان ابراہم) عظمیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں کہاں تھیں؟
اس پر عظمیٰ انہیں بونیر کا نام بتاتی ہیں جس کے بعد جان ابراہم حیران ہو کر پوچھتے ہیں ’بونیر‘؟ یعنی خیبر پختونخوا۔ عام پاکستانی ڈر کے مارے وہاں نہیں جا پاتے، آپ کیسے پہنچ گئیں؟‘
عظمیٰ اپنی لاعلمی کا اظہار کرتی ہیں اور پھر جان ابراہم ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو پاکستانی ویزہ اتنی آسانی سے کیسے ملا تو عظمیٰ، طاہر کا حوالہ دیتے ہوئے زبردستی شادی کا بتاتی ہیں۔
عظمیٰ کہتی ہیں کہ انہیں مارا پیٹا گیا، اس لیے اب انہیں ہائی کمیشن کی مدد کی ضرورت ہے۔ جان ابراہم کسی صورت اُن پر یقین نہیں کرتے اور کہانی چلتی ہے۔
بونیر کے رہائشی اور سوشل میڈیا صارفین یہ منظر شیئر کرتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے علاقے کی مزاحمتی تاریخ اور پرامن ماحول کو ایک فلم کے لیے دہشت گرد زون کی طرح کیوں پیش کیا گیا ہے؟

دوسری طرف بونیر کے معروف صحافی و سماجی کارکن شبیر بونیری فلم کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’فلم میں خیبرپختونخوا اور خاص طور پر بونیر کی جو منفی عکاسی کی گئی ہے وہ تاریخی حقائق اور مقامی ثقافت سے یکسر مختلف ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فلم کے کلپس وائرل ہونے کے بعد مقامی آبادی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس فلم سے یہاں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ بونیر کے عوام انتہائی مہمان نواز ہیں لیکن فلم میں انہیں جو دکھایا گیا وہ ہماری روایات کے منافی ہے۔ پورے خیبرپختونخوا کا یہ تاثر ہے کہ بونیر کے لوگ محبت اور عزت سے پیش آتے ہیں۔‘
فلم میں کیا دکھایا گیا ہے؟
بالی وڈ کی فلم ’دی ڈپلومیٹ‘ حال ہی میں 14 مارچ کو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی ہے جو انڈین سفارت کار جے پی سنگھ کی زندگی کی حقیقی کہانی پر مبنی ہے۔
اس فلم میں ایک انڈین خاتون عظمیٰ احمد (ڈاکٹر عظمیٰ) کے پاکستان آنے، پاکستانی شہری سے شادی کرنے اور دیگر پہلوؤں کو پردے پر پیش کیا گیا ہے۔
فلم کے ہدایت کار شیوم نائر ہیں اور اس کی کہانی 2017 کے واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔
دراصل انڈین خاتون عظمیٰ نامی نے خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے فرار ہو کر انڈین ہائی کمیشن میں پناہ لے لی تھی۔ فلم میں عظمیٰ کے مطابق وہ کوالالمپور میں ایک پشتون ٹیکسی ڈرائیور طاہر سے محبت میں گرفتار ہوئیں جو انہیں پاکستان لے گیا۔
بونیر پہنچتے ہی عظمیٰ کے سامنے اس وقت طاہر کا پردہ فاش ہوا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور اس نے انہیں جبراً اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔
تشدد اور ظلم سے تنگ آ کر عظمیٰ نے ہوشیاری سے انڈین سفارت خانے تک رسائی حاصل کی جہاں جے پی سنگھ نام کے ڈپلومیٹ نے ان کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے سفارتی اور قانونی جنگ لڑی۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سفارت خانے میں پہنچنے کے بعد عظمیٰ نے واپس بونیر جانے سے انکار کیا اور تب تک وہاں پناہ لیے رکھی جب تک اس وقت کی انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج کے احکامات پر انہیں محفوظ راستہ نہیں ملا۔

دوسری طرف طاہر اور اس کے حامیوں نے سفارت خانے کے باہر دھرنا دے رکھا تھا جبکہ پاکستانی عدالت میں مقدمہ بھی چل رہا تھا۔
فلم کے مطابق انڈین حکومت نے کلبھوشن یادھو کیس کے دوران ہی عظمیٰ کی واپسی کی درخواست دائر کر دی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔
اس فلم میں دراصل جے پی سنگھ کو دونوں ممالک کے تعلقات، قانونی پیچیدگیوں اور اخلاقی کشمکش کا سامنا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فلم میں پاکستان اور بالخصوص بونیر کو ایک ایسے علاقے کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جیسے وہ ’نو گو ایریا‘ ہو۔
فلم کے کئی مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اردو نیوز نے بونیر کے رہائشی افراد اور 2017 میں طاہر کے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل سے رابطہ کیا تاکہ 2017 کے واقعات سے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں اور معلوم کیا جا سکے کہ بونیر کے رہائشی اس فلم پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
سنہ 2017 میں کیا ہوا؟
یکم مئی 2017 کو انڈین خاتون ڈاکٹر عظمیٰ اور پاکستانی شہری طاہر علی کے متنازع کیس میں طاہر کی وکالت ایڈووکیٹ فیاض نے کی۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈاکٹر عظمیٰ نے عدالت میں جو کہانی گھڑی تھی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور فلم میں بھی اس کے برعکس حالات و واقعات دکھائے گئے ہیں۔

ان کے مطابق ان کے پاس شادی کی ویڈیوز، نکاح نامہ اور خود ان کے بیان حلفی سمیت تمام دستاویزات موجود ہیں جو اس فلم میں دکھائے گئے حالات کی نفی کرتے ہیں۔
ایڈووکیٹ فیاض کے مطابق ’طاہر اور عظمیٰ کی ملاقات ملائیشیا میں ہوئی جہاں طاہر ٹیکسی چلاتے تھے۔ یہ دونوں دوست بنے اور پھر انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا لیکن اس دوران طاہر پاکستان آگئے اور عظمیٰ انڈیا چلی گئیں۔‘
’عظمیٰ نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن سے ویزا حاصل کیا اور اس کے بعد وہ واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ طاہر نے انہیں واہگہ بارڈر سے بونیر پہنچایا جہاں ان کا بھرپور استقبال بھی ہوا۔‘
ایڈووکیٹ فیاض کے مطابق جب ڈاکٹر عظمیٰ بونیر پہنچیں تو وہاں کے لوگوں نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کو تحائف پیش کیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پورے علاقے میں یہ خبر پھیل گئی اور مقامی افراد نے ڈاکٹر عظمیٰ کو گھر میں خوش آمدید کہا۔ خواتین اور بچوں نے تحائف دے کر ان کا استقبال کیا۔‘
ایڈووکیٹ فیاض کہتے ہیں کہ ’یہی ہماری ثقافت کی اصل تصویر ہے جسے فلم ’دی ڈپلومیٹ‘ میں مسخ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ’ایک روز بعد ہی یہ دونوں ڈسٹرکٹ کورٹ ڈگر پہنچے جہاں انہوں نے 3 مئی 2017 کو کورٹ میرج کی۔‘
اردو نیوز کے پاس دستیاب ڈاکٹر عظمیٰ کے نکاح نامے میں تشریح مہر کے خانے میں حج کی ادائیگی جبکہ پتہ کے خانے میں انڈین شہری درج ہے۔

ایڈووکیٹ فیاض کے مطابق ’عظمیٰ کے بھائی وسیم نے انہیں انڈیا واپس بلا کر ولیمہ اپنے ملک میں ہی دینے کا وعدہ کیا۔ جب یہ اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن گئے تو عظمیٰ کو اندر لے جایا گیا جبکہ طاہر علی کو انتظار گاہ میں بٹھایا گیا۔‘
’ہائی کمیشن کے افسران نے عظمیٰ کو ورغلایا تو انہوں نے طاہر کے خلاف کچہری میں اغوا کی شکایت درج کر لی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عظمیٰ کو اغوا کیا گیا ہوتا تو بارڈر پر وہ خاموش کیوں رہیں؟ وہاں تو سکیورٹی اہلکار ان کے اپنے ہی ملک کے تھے انہوں نے ان کو کیوں نہیں بتایا؟‘
دوسری طرف 16 مئی 2017 ایڈووکیٹ فیاض نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کر کے استدعا کی کہ طاہر اور عظمیٰ کو آزادانہ ملاقات کی اجازت دی جائے جہاں ان پر کوئی اثر انداز نہ ہو۔
انہوں نے پٹیشن میں موقف اپنایا کہ جب تک کیس جاری رہے تب تک عظمیٰ کو پاکستان میں رہنے کا پابند بنایا جائے، تاہم سماعت کے روز عظمیٰ نےکورٹ روم میں بے ہوشی کا ڈرامہ کیا تاکہ انہیں انڈیا واپس بھیج دیا جائے۔
ایڈووکیٹ فیاض کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا شبہ ہے کہ یہ سب ان سے انڈین ہائی کمیشن کے افسران نے کروایا تھا۔‘
انہوں نے بونیر کی ثقافتی روایات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں مہمان کو بے پناہ عزت دی جاتی ہے۔ اگر کوئی ہمارے گھر میں کسی کو قتل کرے اور پناہ مانگے تو ہم اسے بھی پناہ دیتے ہیں۔‘

’ہم نے عظمیٰ کے خلاف کوئی ایف آئی آر تک درج نہیں کی اور ہماری قانونی حیثیت بھی مضبوط تھی لیکن اس وقت عظمیٰ نے انڈین ہائی کمیشن کی ایما پر جو ہرزہ سرائی کی اس سے ہمیں ٹھیس پہنچی۔‘
ایڈووکیٹ فیاض نے کہا کہ اسی طرح انڈین ہائی کمیشن نے بھی رٹ پٹیشن دائر کی۔ اس حوالے سے اس وقت پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عظمیٰ نے خود ہائی کمیشن سے رابطہ کیا تھا۔‘
’اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی نے فریقین کی درخواستوں پر سماعت کی اور 24 مئی کو فیصلہ سناتے ہوئے عظمیٰ کو انڈیا واپس جانے کی اجازت دے دی۔‘
ایڈووکیٹ فیاض کے مطابق ’عدالت نے وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ واہگہ بارڈر تک انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے۔‘
’فیصلے کے بعد عظمیٰ کو مکمل سکیورٹی کے ساتھ واہگہ بارڈر تک پہنچایا گیا جہاں سے وہ دوپہر کے وقت انڈیا روانہ ہو گئیں۔‘
بونیر کے عوام کیوں افسردہ ہیں؟
’دی ڈپلومیٹ‘ فلم پر خیبر پختونخوا اور بالخصوص بونیر کے عوام افسردہ ہیں۔ ان کے مطابق فلم میں ایک حقیقی واقعے کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کے لیے حقائق مسخ کیے گئے ہیں اور بونیر کی منفی عکاسی کی گئی۔
بونیر کے رہائشی اور قانون کے طالب علم مصطفیٰ یوسفزئی نے کہا کہ ’دی ڈپلومیٹ‘ میں علاقے کی امن پسند شناخت کو مجروح اور تاریخی واقعات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔
’بونیر کی تاریخ غلامی کی نہیں بلکہ غیور اور آزادی پسند قوم کی داستان ہے۔ یہاں کے لوگ بیرونی جارحیت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور یہ علاقہ ہمیشہ امن پسند رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’فلم سازوں نے محض اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے ایک حقیقی واقعے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جس سے نہ صرف بونیر بلکہ پورے پاکستان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘