سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ ایشیا پر رد عمل اور صدائے بازگشت مسلسل سنی جارہی ہے ۔ 3ایسے ممالک کا دورہ کیا گیا جن کے قائد ایک دوسرے سے مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔ تینوں ممالک میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں سعودی عرب کے ساتھ تاثیر اور تاثر کا رشتہ رکھتے ہیں۔ تینوں ممالک کے تینوں قائدین مملکت کیلئے بیحد اہم ہیں۔ پاکستان ، ہندوستان سے علیحدگی کے نتیجے میں معرض وجود آیا۔ برطانیہ کے استعماری حکمرانوں نے نئی ریاست کی سرحدیں تخلیق کیں۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ یہ کئی برس کی توجہ طلب سیاسی جدو جہد کے بعد اس منصب تک پہنچے ہیں۔ وہ عظیم قومی کرکٹر تھے۔ کرکٹ کو خیر باد کہہ کر سیاست کی دنیا میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اپنے ملک کو ورلڈ کپ دلانے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان سے میری پہلی ملاقات جدہ میں ہوئی۔یہاں وہ عمرے کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔کینسر اسپتال کے عظیم فلاحی منصوبے کیلئے عطیات مہم چلائے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسپتال کا نام اپنے والدہ سے منسوب کیا۔اس وقت عمران خان کے ہمراہ برطانوی عرب پتی جیمس گولڈ اسمتھ کی بیٹی ان کی رفیق حیات کے طور پر تھی۔عمران خان نے پرویز مشرف، نواز شریف اور بینظیر بھٹو سے مقابلہ کیا۔ یہ سب طاقتور تھے۔ یہ تینوں مالی اثرو نفوذ رکھتے اور موثر قبائلی طاقت کے بھی مالک تھے۔ عمران خان نے رفتہ رفتہ سیاسی تجربہ حاصل کیا۔ سیاسی فراست سیکھی اور پاکستانی عوام اور فوج کی خوشنودی پاکر انتخابات کے ذریعے وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ عمران خان پاکستانی اقتصاد کو بدعنوانی سے آزاد کرانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ وہ چین اور مغرب دونوں کے ساتھ برابر کا فاصلہ بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کے ساتھ حریف والا تعلق بھی استوار کئے ہوئے ہیںتاہم وہ اپنے پیغام میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ وہ ملک میں موجود موثر بنیاد پرستوں کے ساتھ رواروی کا طرز اختیار کررہے ہیں۔ عمران خان کے سامنے بڑے چیلنج ہیں۔ ان کے مفاد میں یہ بات ہے کہ فی الوقت پاکستان میں مضبوط اور پریشان کرنے والی اپوزیشن نہیں جبکہ دوسری جانب انہیں فوج اور عوام کی حمایت حاصل ہے۔ ممکن ہے یہ خصوصیت انہیں ملک میں مطلوبہ تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہو۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو اسے گاندھی کے ہاتھوں آزادی نصیب ہوئی، جواہر لال نہرو نے جو مغرب کے اہم اسکولوں کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ تھے،جمہوریت اور سوشلزم کو ملک میں رائج کیا۔ وہ غیر معمولی ذہین تھے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاریخی کردار کی وجہ سے بڑی کمپنیوں کی جانب سے شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے تھے اسی لئے انہوں نے جمہوریت اور شہری ریاست کو پوری قوت سے اپنانے کے ساتھ ساتھ سوشلزم کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے بعد اندرا گاندھی آئیں ۔ وہ بھی اپنے باپ کے طرز پر ملک کو چلاتی رہیں پھر نرسمہا راؤ نے ہندوستانی معیشت کو سرمایہ کاروں کے حوالے سے دوست پالیسیاں دیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے ملک کے دروازے کھولے ۔اس کے نتیجے میں ہندوستان کو جدید ٹیکنالوجی اور طب ، دواسازی، کار سازی، خوراک اور ملبوسات جیسے دسیوں شعبے میں برتری دلائی۔ ان دنوں نریندر مودی ملک کے حکمراں ہیں۔ وہ تاجر دوست مانے جاتے ہیں۔ شعلہ بیان مقرر ہیں۔اپنے معمولی پس منظر کے باوجود ملک میں سرمایہ کار اچھا ماحول برپا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ چین کی کامیابی کا قصہ ضرب المثل بن چکا ہے۔ ماؤزے تنگ نے ملک میں ثقافتی انقلاب برپا کیا تھا۔انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کو ملک کی واحد حکمراں جماعت بنایا، دنیا سے الگ تھلگ کردیا۔ ان کے بعد ڈنگ ژیاؤپنگ نے نیا چین بنانے کا اہتمام کیا۔ دنیا بھر کی مارکیٹوںکے دروازے کھولے۔موجودہ صدر کی بابت کہا جارہے کہ وہ چین کی تاریخ کے طاقتور ترین رہنما ہیں۔ وہ سیاسی اور عسکری اعتبار سے چین کو سب سے طاقتور ملک بنانے کیلئے پر عزم ہیں۔ وہ جاپان، فلپائن اور ویتنام کے زیر کنٹرول بہت سارے علاقوں کو چینی علاقے قراردے رہے ہیں اور ان سب کو چینی قلم رو میں شامل کرنے کے مشن پر کارفرما ہیں۔ تائیوان کو بھی چین میں شامل کرنے کا بگل بجائے ہوئے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ 3مختلف ممالک کو 3مختلف قسم کے قائد چلا رہے ہیں۔ ایشیا اقتصادی دنیا کا قائد بنے گا لہذا ایشیا کو قریب سے دیکھنا اور سمجھنا پڑیگا۔