’’تشدد پہلے بھی ہوا لیکن دردناک واقعے کو سامنے لانے کی ٹھانی‘‘
اعظم خان
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مبینہ طور پر گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون عاصمہ عزیز کے مطابق ان پر تشدد پہلے بھی ہوتا تھا لیکن حالیہ دردناک واقعے نے پولیس کے پاس جانے پر مجبور کیا۔
عاصمہ عزیز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تشدد کے بارے میں رپورٹ درج کرانے گئیں تو پولیس سٹیشن میں انھیں الگ سے ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر فیصل سے جان چھڑا کر لاہور کے علاقے ڈیفنس کے پولیس سٹیشن کاہنہ ایف آئی آر درج کرانے پہنچیں تو پولیس نے میڈیکل کے نام پر ان سے پانچ ہزار روپے مانگے۔ ’میرے پاس صرف پانچ سو روپے تھے جو میں نے پولیس کو دیے۔ مجھے بعد میں پولیس نے وہ پیسے واپس کردیے لیکن میڈیکل رپورٹ ابھی تک نہیں دی گئی۔‘
عاصمہ عزیز کہتی ہیں کہ پولیس نے جو کرنا تھا کر لیا اور اب انھیں بس عدالت سے انصاف چاہیے۔
’جب مجھے میرے شوہر نے برہنہ کرکے ڈانس پرنے پر مجبور کیا تو اس وقت دو نوکر بھی وہاں موجود تھے جن کو ابھی تک پولیس نے گرفتار ہی نہیں کیا ہے۔‘
عاصمہ عزیز نے مزید بتایا کہ وہ ابھی بھی تکلیف میں ہیں۔
’ اپنا کسی قسم کا علاج نہیں کرا رہی ہوں۔ مجھے میرے وہ کپڑے چاہیں جن پر تشدد کے بعد خون لگا ہوا ہے تاکہ ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کر سکوں۔‘
عاصمہ کہتی ہیں: ’گھریلو ناچاقی پر مجھ پر تشدد پہلے بھی ہوتا تھا لیکن مجھ پر ہونے والے اس دردناک واقعے پر میں نے رپورٹ درج کرانی کی ٹھانی اور اپنا درد سب کے سامنے بتا دیا۔‘
عاصمہ کے وکیل عثمان خالد کے مطابق تھانے میں موجود اہلکاروں نے عاصمہ کی درخواست پر ایف آئی آر درج کرنے اور فوری میڈیکل کرانے سے صاف انکار کیا، جس پر عاصمہ نے میڈیا پر اپنی دردناک کہانی کو لانے کا مشکل فیصلہ کیا۔
میڈیا پر یہ واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی ، ایف آئی آر درج کرتے ہی عاصمہ کے شوہر کو اس کے دوست راشد سمیت گرفتار کرلیا۔
عاصمہ عزیز کے وکیل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر پولیس فوری میڈیکل کرا دیتی تو پھر عاصمہ کی مشکلات میں اضافہ نہ ہوتا۔
’اب ہماری کوشش ہو گی کہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے وہ دفعات ضرور شامل کرائی جائیں جن کا تعلق ایک عورت کو غیرمحرم مردوں کے سامنے برہنہ کرنے سے متعلق ہیں۔ ‘
تھانہ کاہنہ کے انسپیکٹر جاوید صدیق نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ عاصمہ اس واقعے کے 18 گھنٹے بعد رپورٹ درج کرانے آئیں۔ عاصمہ کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا جس وجہ سے ایف آئی آر درج نہیں کی۔
’اب سسٹم آن لائن ہے ایف آئی آر میں شناختی کارڈ نمبر کا اندراج ضروری ہے، جیسے ہی عاصمہ نے ہمیں گھر پہنچ کر نمبر بھیجا تو پولیس نے رپورٹ درج کرلی اور ملزمان کو گرفتار کرلیا۔‘
کاہنہ پولیس سٹیشن کے مطابق عاصمہ عزیز کے پاس میڈیکل کی فیس نہیں تھی اور ایک خاتون اہلکار نے اپنی جیب سے وہ رقم ادا کی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ملزمان کے خلاف کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔