Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ میں جبری مذہب تبدیلی کے بڑھتے واقعات، مخصوص قانون کی غیر موجودگی

زاہد النساء
 
پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہندو اقلیتی برادری کی دو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور اس کے بعد ان کے مذہب کی تبدیلی کے واقعے کے بعد ایک بار پھر ہندو برادری کو حاصل حقوق کے بارے میں سوالات کیے جا رہے ہیں۔ 
پاکستان میں مذہب ہمیشہ سے ایک حساس معاملہ رہا ہے جس کی وجہ سے اقلیتی برادریوں کو مذہب کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں اگرصوبہ سندھ کی بات کی جائے تو یہاں ہندو برادری کی جانب سے کئی بار احتجاج کیا گیا ہے کہ ان کی نوجوان لڑکیوں کو زبردستی اغوا کر کے مذہب تبدیل کرا دیا جاتا ہے۔
 سینیٹ کی رکن اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری کوہلی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کم عمر بچوں کی شادی کی روک تھام کے لیے کئی قوانین موجود ہیں مگرجبراً مذہب تبدیلی کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں جس کی وجہ سے متعلقہ واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
چند برس پہلے ہندو لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی روک تھام کی بات ہوئی تو2016 میں سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے تحفظ کا بل (پروٹیکشن آف مائناریٹیز بل) پیش کیا گیا۔ 
اس بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکی کی مذہب تبدیلی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اورجبراً ایسا کرانے والوں کے لیے سزا مقرر کی گئی تھی۔ 
بل 2016 میں ہی اسمبلی سے منظور ہو گیا تھا لیکن تاحال قانون کی شکل نہ اختیار کر سکا۔
اردو نیوز نے جب بل کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر سندھ کے وزیرِاعلیٰ کے مشیرمرتضیٰ وہاب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ تکنیکی مسائل کوذمہ دار ٹھہرایا تاہم انہوں نے درپیش مسائل کی وضاحت نہیں کی۔
تاہم سندھ اسمبلی میں اس بل کو پیش کرنے والی حکمران جماعت کے ارکان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذہبی حلقوں کی جانب سے دباؤ بل کی منظوری میں رکاوٹ بنا رہا ہے جس کی وجہ سے اب تک گورنر سندھ نے مجوزہ بل پر دستخط نہیں کیے تھے۔
صوبہ سندھ کے علاقے تھر سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری نے کہا کہ قانون کے نفاذ سے ہی کم عمر ہندو لڑکیوں کے اغوا کے واقعات میں کمی ممکن ہو سکے گی۔
قانونی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جامع قانون کی غیرموجودگی میں کم عمر لڑکیوں کے جبری نکاح کے خلاف چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے ذریعے کارروائی کی جاسکتی ہے۔
 خیال رہے کہ ان دنوں پاکستان میں دو ہندو بہنوں کے مبینہ اغوا اور مذہب کی جبری تبدیلی نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے جس پر انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ٹویٹس بھی کیں اور اس کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سخت جواب بھی دیا جبکہ وزیراعظم اس واقعے پر نوٹس لے چکے ہیں اور اب معاملہ عدالت میں ہے۔ 
  • سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا کے واقعات کیوں؟
جبری مذہب تبدیلی، جبراً شادی اور سندھ میں عورتوں کی آزادیِ رائے سے متعلق اپنی تحقیق میں جرمن مورخ یرگن شلافلشنر نے وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے واقعات اکثر وہاں پیش آتے ہیں جہاں مجرموں کو علاقے کے وڈیرے یا کسی بااثر شخصیت کی حمایت حاصل ہو کیونکہ اس صورت میں ان کا بچ نکلنا آسان ہوتا ہے۔ 
انہوں نے اس مسئلے کے بارے میں مزید لکھا  کہ اکثر واقعات میں بعض مذہبی جماعتیں بھی ان واقعات کے خلاف آواز اٹھانے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف سرگرم ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ  ایسے واقعات اکثر اوقات سامنے  بھی نہیں آتے کیونکہ متاثرہ خاندان اپنی عزت پامال ہونے کے ڈر سے انہیں چھپا دیتے ہیں۔
ایسے جرائم کے خلاف ایسی ہی آواز 2016 میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اٹھائی گئی تھی اور سندھ اسمبلی میں پروٹیکشن آف مائناریٹیزبل پیش کیا گیا تھا جوحال ہی میں ہونے والی دو کم عمر ہندو بہنوں کی جبراً مذہب تبدیلی اور نکاح پرشور اٹھنے کے بعدد دوبارہ منظرِ عام پر آیا ہے۔ امکان ظاہر کیا ہے کہ اب قومی سطح پر بھی اس بل پر غورکیا جائے۔
اس سے قبل یہ بل صوبائی حکومت نے پیش کیا تھا جو تا حال قانون کی شکل نہ اختیار کر سکا۔
اکثر معاملات میں کہا جاتا ہے کہ کم عمر بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کو اغوا کر کے ان سے زبردستی مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے اور مسلمان لڑکوں سے ان کا نکاح کروا دیا جاتا ہے۔ 
 

شیئر: