اعظم خان
وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں ردوبدل کے بعد اہم وزارتوں میں غیر منتخب اراکین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ اب وزارت اطلاعات و نشریات اور خزانہ جیسی اہم وزارتوں کا قلمدان بھی ان غیر منتخب مشیروں کو سونپ دیاگیا ہے۔
مشیروں کی اس فوج میں بیرون ملک مقیم عبدالحفیظ شیخ شامل ہیں جنہیں خزانے کی چابیاں تھمادی گئی ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے، پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی نظریں پھر عبدالحفیظ شیخ پر جاٹھہری ہیں۔
نئے مشیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ کون ہیں؟
عبدالحفیظ شیخ پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے جیکب آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد عبدل نبی شیخ کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنماو ں میں ہوتا ہے۔ ان کی سابق چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو کے خاندان سے قریبی رشتہ داری ہے۔
عبدالحفیظ شیخ کراچی یونیورسٹی سے 1977 میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلے گئے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بوسٹن یونیورسٹی امریکہ سے حاصل کی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔
پی ایچ ڈی کے بعدعبدالحفیظ شیخ نے ورلڈبنک میں ملازمت اختیار کی اور ورلڈ بنک کے نمائندے کے طور پر 20 سے زائد ممالک میں خدمات سرانجام دیں۔
جب 1999میں پرویزمشرف نے مارشل لاءکے نفاذ کا اعلان کیا تو پاکستان کے بہترین اکانومسٹ کی ایک لسٹ مرتب کرائی جس میں عبدالحفیظ شیخ بھی شامل تھے جو اس وقت ورلڈ بنک کے سعودی عرب میں ڈائریکٹر اکنامک آپریشن تعینات تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کو پاکستان واپس بلایا گیا اور صوبہ سندھ کے خزانے کی چابیاں ان کے حوالے کردی گئیں۔ا س عرصے کے دوران صوبے کی منصوبہ بندی کا اضافی قلمدان بھی ان کے پاس رہا۔ وہ 2000 سے 2002 تک اس منصب پر فائز رہے۔ 2003میں پرویز مشرف نے انہیں وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کا عہدہ دے دیاجس پروہ 2006 تک فائز رہے۔
اس وقت ملکی معیشت کی باگ ڈور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے ہاتھ میں تھی اور عبدالحفیظ شیخ شوکت عزیزکے قریبی مشیروں میں سے تھے۔ جب عبدالحفیظ شیخ کی وزارت ختم ہوگئی تو ایک بار پھر وہ ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ایک مشاورتی فرم کی بنیادرکھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آنے کے فوری بعد معاشی بحران کی لپیٹ میں آگئی۔ایسے میں ایک مرتبہ پھرحکومت کی نگاہیں عبدالحفیظ شیخ پرجا ٹھہریں۔ عبدالحفیظ شیخ بیرون ملک سے دوبارہ وطن واپس لوٹے اور وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا۔
پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ نون کو بھی اپنے دورحکومت میں معاشی بحران کا سامنا رہا تاہم،بیرون ملک سے کسی معیشت دان کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی گئی۔
اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت معاشی بحران کی زد میں ہے تو وزیراعظم عمران خان نے اپنے قابل اعتماد وزیرخزانہ اسد عمر سے استعفیٰ لے کر عبدالحفیظ شیخ کو پھر پاکستان واپس آکر معاشی بحران پر قابوپانے کی دعوت دے دی ہے۔
کیا عبدالحفیظ شیخ معاشی استحکام لاسکیں گے؟یہ جاننے کے لیے کہ کیا عبدالحفیظ زبوں حال شیخ معاشی معاملات میں استحکام لا سکیں گے؟ اردو نیوز نے معاشی ماہرین سے بات چیت کی ہے۔
ماہر معیشت ہمایوں گوہر کا کہنا ہے کہ ’عبدالحفیظ شیخ ایک باقاعدہ اکانومسٹ ہیں، عمران خان ان کے معاشی ویڑن کے معترف ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات پر ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔‘
ہمایوں گوہر کا کہنا ہے کہ فوج بھی عبدالحفیظ شیخ کو پسند کرتی ہے، بدقسمتی سے ملک میں ایسے قابل معیشت دان موجود ہی نہیں ہیں۔عبدالحفیظ شیخ کو اگر اختیارات دیے گئے تو پھر وہ کارکردگی بھی دکھائیں گے۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن جوکراچی یونیورسٹی میں عبدالحفیظ شیخ کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ شیخ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ آکر گھما ئیں گے اورہم معاشی بحران سے نکل آئیں گے۔ وہ اس سے پہلے بھی ملک میں آئے اور ہر بار مایوس ہی واپس لوٹے ہیں۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ’عبدالحفیظ شیخ گذشتہ چار دہائیوں سے ملک سے باہر رہ رہے ہیں۔ پاکستان کے نظام کے لیے وہ ایک اجنبی کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
مسلم لیگ نوازکے ایک سابق وزیرخزانہ نے اردونیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایاکہ عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی ایک اچھا فیصلہ ہے، وہ معاشی بحرانوں سے نمٹنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ کڑی شرائط پر بھی عبدالحفیظ شیخ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔