اعلٰی تعلیمی اداروں میں مقالوں کی چوری کا ذمہ دار کون؟
***رضوان صفدر***
دنیا بھر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے سرقہ بازی اور دیگر ناجائز طریقوں کے استعمال کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن پاکستان میں سرقہ بازی اور خود تحقیق کرکے تھیسزیا مقالہ لکھنے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے تھیسز لکھوانا یا لکھا لکھایا تھیسز خریدنا کچھ زیادہ ہی آسان ہے۔
پاکستان میں اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سرقہ بازی پر قابو پانے اور اعلی تعلیم کی نگرانی کے ذمہ دار ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اپنے ہی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ارشد علی کو اپنے ڈاکٹریٹ کے تھیسز میں سرقہ بازی کرنے پر اکتوبر 2018 میں عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)میں کوالٹی انشورنس ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد سہیل کے مطابق ملک میں اعلیٰ تعلیم خاص طور پر پی ایچ ڈی کی سطح پر سرقہ بازی کو روکنے کے لیے ایچ ای سی نے ایک سٹینڈنگ کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے جو اس حوالے سے موصول ہونے والی شکایات پر تحقیقات اور فیصلے کرتی ہے۔
محمد سہیل کے مطابق یہ کمیٹی اپنی حالیہ کارروائیوں میں سرقہ بازی میں ملوث 10 سے زائد اساتذہ کو بلیک لسٹ کر چکی ہے جن کے نام ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف کوالٹی ڈویژن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ایچ ای سی کی سرقہ کمیٹی، کمیشن کے نئے چیئرمین طارق بنوری کے مئی 2018 میں عہدہ سنبھالنے سے اب تک غیر فعال ہے۔ طارق بنوری موجودہ سرقہ پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے نئی پالیسی متعارف کرانا چاہتے ہیں اور اس کام کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی جا چکی ہے جو جلد اپنی رپورٹ چیئرمین کو پیش کرے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سرقہ بازی پر قابو پانے کے لیے 2007 میں پہلی بار ایچ ای سی نے ایک مخصوص پالیسی اور ٹرنیٹن نامی ایک سافٹ وئیر متعارف کروایا تھا۔ پالیسی کے مطابق طلبا کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے
مقالوں میں مختلف تحقیقات کا درست حوالہ دینا لازم ہے جبکہ محقق پہلے سے شائع شدہ مواد کا زیادہ سے زیادہ 19 فیصد ہی اپنے مقالے میں شامل کر سکتا ہے۔
ایچ ای سی کے قواعد کے مطابق ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پہلے مرحلے میں یونیورسٹی کے متعلقہ شعبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سکالرز کے مقالوں کی ٹرنیٹن کے ذریعے جانچ کرے کہ آیا ان میں 19 فیصد سے زائد ایسا مواد تو نہیں جو پہلے ہی کسی دوسری جگہ چھپ چکا ہے۔ یونیورسٹی کے بعد ایچ ای سی کا سٹیٹسٹیکل ڈویژن ہر پی ایچ ڈی مقالے کی خود ٹرنیٹن کے ذریعے جانچ کرتا ہے اور اس کے بعد ڈگری کی توثیق کی جاتی ہے۔
متعدد تعلیمی ماہرین ایچ ای سی کی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ سافٹ ویئر کے ذریعے سرقہ بازی پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ٹرنیٹن سافٹ وئیر سرکاری و نجی جامعات میں انگریزی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں مثلا اردو، عربی، اسلامیات اور فارسی وغیرہ میں لکھے جانے والے مقالوں کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا۔ ایچ ای سی بھی اب تک ایسا کوئی سافٹ وئیر متعارف نہیں کروا سکی جو مذکورہ زبانوں میں ہونے والی تحقیق میں سرقے کی جانچ کر سکے۔
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ پاکستان میں تدریسی فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر عاصم سجاد کہتے ہیں کہ 'سرقہ بازی پر قابو پانے کے لیے ہمیں نہ صرف اپنی پالیسیاں بدلنا ہوں گی بلکہ پورے تعلیمی نظام پر ہی نظر ثانی کرنا ہوگی۔'
ڈاکٹر عاصم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی معیار میں گراوٹ اور سرقہ بازی کی سب سے بڑی ذمہ دار خود ایچ ای سی ہے، جب آپ پروفیسرز کی ترقی کا پیمانہ ریسرچ پیپرز کی تعداد کو رکھیں گے اور ریسرچ کے معیار کو بالکل ہی نظر انداز کر دیں گے تو یہی ہوگا۔'
ڈاکٹر عاصم نے یہ بھی کہا کہ 'پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام چربہ ساز ہی پیدا کر سکتا ہے،اگر ہم سکولوں میں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو ہمارے بچے بڑے ہو کر کسی دوسرے کا کام کاپی پیسٹ کرکے اپنا نام لکھنے کی بجائے خود کچھ نیا تخلیق کرنا چاہیں گے۔'
اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ عمرانیات کے سربراہ ڈاکٹر حاضر اللہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں جعلی تحقیق اور سرقہ بازی کی روک تھام کے لیے پورے تعلیمی نظام کو ہی بدلنے کی ضرورت ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'پروفیسرز کو چونکہ خود تحقیق کرنا نہیں آتی لہذا وہ طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ یا تو وہ کسی کا کیا ہوا تحقیقی کام چوری کر لیں اور یا پھر کسی کو پیسے دے کر اپنا کام کرا لیں۔‘
سرقہ بازی کو روکنے کے لیے اپنی تجویز میں انہوں نے کہا کہ سپروائزر کو جوابدہ بنایا جائے اور ایسی سزائیں دی جائیں کہ لوگ ایسا کرنے سے ڈریں۔
فیصل آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے باہر فوٹو کاپی اور کمپوزنگ کا کام کرنے والے ایک شخص نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہمارے پاس اسائنمنٹس بنوانے اور تھیسز لکھوانے کے لیے بی ایس سی سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے طالب علم آتے ہیں،ہم مکالہ لکھنے کے پیسے صفحوں اور الفاظ کی گنتی کے حساب سے لیتے ہیں۔ اگر کوئی صرف اپنے اکھٹے کیے گئے ڈیٹا کا تجزیہ کروانا چاہتا ہے تو وہ ہم شماریات کے ماہر سے کروا کر دیتے ہیں اور اس کام کا25 سے30 ہزار روپیہ لیتے ہیں۔'