’بھاتیہ جنتا پارٹی کے 40 فیصد امیدواروں پر سنگین الزامات'
’بھاتیہ جنتا پارٹی کے 40 فیصد امیدواروں پر سنگین الزامات'
ہفتہ 18 مئی 2019 3:00
انڈیا کے 98 فیصد ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ جرائم میں ملوث امیدواروں کو پارلیمنٹ میں نہیں ہونا چاہیے
انڈیا میں رواں ماہ جاری لوک سبھا یعنی ایوان زیریں کے عام انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یہ برتری حاصل ہے کہ اس نے بیشتر ایسے امیدوار انتخابی میدان میں اُتارے ہیں جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
دوسری جانب بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس بھی اس کام میں محض ایک ہی قدم پیچھے ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ انڈیا میں انتخابات اور امیدواروں کا جائزہ لینے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایسوسی ایشن برائے جمہوری اصلاحات‘ (اے ڈی آر) کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے 40 فیصد امیدواروں کو مختلف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے جن میں خواتین کے خلاف جرائم اور قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔
اس ضمن میں کانگریس کا ریکارڈ بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے اور اس کے 39 فیصد امیدواروں پر بھی مختلف نوعیت کے جرائم کے الزامات ہیں۔
تنظیم کے مطابق حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے ہر پانچویں امیدوار کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔
انڈیا کی چھوٹی پارٹیوں میں سے کیمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سب سے زیادہ 58 فیصد امیدواروں کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا کے انتخابی قوانین ملزمان کو الیکشن لڑنے کی چھوٹ دیتے ہیں تاہم جب ان کا جرم ثابت ہو جائے اور وہ سزا یافتہ ہو جائیں تو الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
انڈیا میں چونکہ عدالتی عمل اور نظام انصاف انتہائی سست ہے اس لیے ملزمان کے ٹرائل میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو دس سال بعد جا کر کیس حل ہوتا ہے۔
اے ڈی آر کے سربراہ انیل ورما کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتیں صرف اپنی جیت کے بارے میں سوچتی ہیں اور یہ جانتی ہیں کہ پیسے، طاقت اور اثرو رسوخ کے بل بوتے پر ہی کامیابی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق کے سریندرن نامی بی جے پی کے ایک امیدوار کے خلاف فسادات کو ہوا دینے اور قتل سمیت 240 مقدمات درج ہیں۔
انیل نے بتایا کہ ان کے خلاف ان میں سے زیادہ تر مقدمات اس وقت بنے جب وہ بی جے پی کی اس مہم کا حصہ تھے جو سنِ بلوغت تک پہنچ جانے والی لڑکیوں اور خواتین کا کیرالہ کے مندر میں داخلہ روکنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔
سریندرن کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی فرد مجھے مجرم سمجھ سکتا ہے مگر حقیقت میں، میں پوری طرح بے قصور ہوں، یہ سب سیاسی تھا۔‘
اسی طرح کانگریس کے امیدوار ڈین کوریا کوس 204 مقدمات میں ملوث ہونے کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان پر عائد زیادہ تر الزامات کیرالہ میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اس سیاسی تحریک سے متعلقہ ہیں جس کی وجہ سے انتشار پھیلا تھا۔
روئٹرز نے ڈین کوریا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے اس حوالے سے بات نہیں ہو سکی تاہم پارٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’کوریا کورس بے قصور ہیں، پولیس نے ان پر کیرالہ حکومت کے دباؤ کی وجہ سے بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمات درج کیے۔‘
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ’اکثر اوقات لوگ ایسے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن پر جرائم کے مختلف الزمات ہوتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے افراد زیادہ بہتر طریقے سے ان کے کام آسکتے ہیں۔‘
یونیورسٹی آف حیدر آباد میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کے سی سوری کا کہنا ہے کہ ’طاقتور افراد، نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک متوازن نظام متعارف کراتے ہیں۔‘
اے آر ڈی نے گذشتہ سال ڈھائی لاکھ ووٹرز سے ایک سروے کیا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 98 فیصد ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ جرائم میں ملوث امیدواروں کو پارلیمنٹ میں نہیں ہونا چاہیے تاہم 35 فیصد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایسے امیدوار کو ذات پات کی بنیاد پر یا اگر کسی امیدوار نے ماضی میں اچھا کام کیا ہو تو اسے ووٹ دیں گے۔