متحدہ عرب امارات میں خواتین کے حقوق کے لیے 'فیمینزم کی بجائے ویمن ہوڈ'
متحدہ عرب امارات میں خواتین کے حقوق کے لیے 'فیمینزم کی بجائے ویمن ہوڈ'
ہفتہ 25 مئی 2019 3:00
خواتسارہ بن صفوان نے سنہ 2016 میں اپنے ہم خیال لوگوں سے جڑنے اور ان کے آرٹ کی ترویج کے لیے 'بنت کولیکٹو' کے نام سے ایک گروپ اور اس کی ویب سائٹ بنائی۔
اس گروپ کا مقصد معاشرے کو خواتین سے متعلق اپنے خیالات و نظریات پر نظرثانی کی ترغیب دینا تھا تاکہ وہ خواتین کے حوالے سے ان نئے زاویوں پر سوچ سکیں جو یہ خواتین آرٹسٹ اپنی پینٹنگز، شاعری، تحریروں اور دیگر کاموں سے اجاگر کرتی ہیں۔
اس گروپ ککے ذریعے ان خواتین فنکاروں کو پہلی بار موقع ملا ہے کہ وہ اپنی پینٹنگز کے زریعے اپنی کہانیاں بیان کر سکیں۔
یہ ویب سائٹ فنکاروں کے کام کو پرنٹ اور آن لائن دونوں طرح چھاپتی ہے جبکہ آگاہی پھیلانے اور صحت مندانہ مباحثے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔
25 سالہ صفوان کا کہنا ہے کہ ’بہت سی نوجوان آرٹسٹ لڑکیاں ایسی تھیں جنہیں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے کبھی موقع نہیں ملا تھا اس لیے ہم نے ان کا انٹرویو کیا۔‘
ابوظہبی کے گوگینیمیم میوزیم میں بطور اسسٹنٹ مہتمم خدمات سرانجام دینے والی صفوان نے لندن کے مشہور سینٹرل سینٹ مارٹنز کالج سے سنہ 2015 میں ثقافت و تنقید میں ڈگری حاصل کی۔
صفوان کہتی ہیں کہ ’ہمارا مقصد صرف خواتین آرٹسٹوں کے آپس میں رابطے بڑھانا ہی نہیں بلکہ عرب خواتین کی نسوانیت کے حوالے سے مختلف مباحثے شروع کرنا ہے کیونکہ ایسا کرنے کے لیے یہاں کوئی دوسرا پلیٹ فارم نہیں ہے لہٰذا ہم اپنی پینٹنگز، شاعری اور تحریروں کے ذریعے یہ سب کر رہے ہیں۔‘
’میں نے فیمینیزم کے بجائے ویمن ہوڈ کی اصطلاح استعمال کی ہے کیونکہ فیمینیزم مغربی نظریات سے آلودہ لفظ ہے جو سیاست کی نذر ہوچکا ہے اور مشرق وسطی میں بسنے والوں پر یہ مغربی نظریات لاگو نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ہم سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ’ان دا مڈل آف اٹ آل کے نام سے سنہ 2018 میں چھپنے والی ہماری کتاب 31 آرٹسٹوں کے تصاویری آرٹ، ادب اور تحریروں کا مجموعہ ہے جو کافی حد تک مخصوص موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کتاب میں بلوغت، جنسی ہراساں کرنے، خوبصورتی کے معیار اور اسی طرح کے دیگر موضوعات پر بات کی گئی ہے۔‘
'بنات کولیکٹو' نے دبئی میں ایک شارٹ فلم کے ذریعے اپنی پہلی نمائش کا بھی انعقاد کیا تھا۔
صفوان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کرنا تھا جنہیں غیر اہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا بعض اوقات ان کے آرٹ کو ختم ہی کر دیا جاتا ہے۔‘
صفوان کہتی ہیں انہیں امید ہے کہ انہیں اپنا کام دکھانے کے مزید مواقع ملتے رہیں گے، اس سال ہم زیادہ مواد شائع کریں گے۔‘