جارج امریکی تاریخ کے کم عمرترین موت کی سزا پانے والے قیدی تھے: تصویر انڈیپنڈنٹ
جب انھیں کُرسی پربٹھایا گیا تو وہ جسم کے مقابلے میں بہت بڑی تھی، ہاتھ پاؤں بندھنے کے باوجود ڈھیلے رہے، سر پر پہنایا جانے والا آہنی کنٹوپ بھی فٹ نہیں تھا۔
انگریزی اخبار’انڈیپنڈنٹ‘ کے مطابق سر مطلوبہ مقام تک نہ پہنچنے کے باعث اسے بائبل کے اوپر بٹھایا گیا، آنسو منہ پر بندھی پٹی میں جذب ہوتے رہے، پھر ایک اشارہ ہوا، لیور نیچے کرنے کی آواز آئی، ہلکی سی چیخ نما سسکی ابھری، جسم اکڑا اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔
یہ کوئی عام کرسی نہیں بجلی کی وہ کرسی تھی جس پر سزائے موت دی جاتی ہے اور چوبیس سو واٹ کا جھٹکا پلک جھپکتے رگوں میں اتر جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔۔۔۔ ملک تھا امریکا اور سزا پانے والا تھا ایک چودہ سالہ لڑکا، جس کا قصور صرف رنگ کا سیاہ ہونا تھا۔
یہ ہے ایک ایسا کیس، جو آج بھی امریکا کی پیشانی عرق آلود کر دیتا ہے۔ یہ کیس دو بار چلا، ایک بار دس منٹ، دوسری بار ستر سال اور پھر مرنے والا بے گناہ قرار پایا۔
یہ منظر ہے امریکی ریاست کیرولینا کے علاقے الکولو کا، سال ہے 1944، جارج سٹینے نامی غریب افریقی نژاد لڑکا اپنے خاندان کے ساتھ ایک ایسے علاقے میں رہتا ہے جو سیاہ فاموں کے لیے مخصوص ہے، سفید فام آبادی ریل کی پٹڑی کے دوسری جانب ہے، سیاہ اور سیفد فاموں میں میل جول ممنوع ہے مگر بچے تو بچے ہیں ناں، دو سفید فام بچیاں سات سالہ بٹی جون بنیکر اور دس سالہ میری ایما اپنی سائیکلیں لیے جارج اور اس کی سات سالہ بہن ایمی کے پاس سے گزرتے ہوئے کہتی ہیں ہم پھول لینے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد وہ لاپتہ ہو جاتی ہیں، ڈُھنڈیا پڑتی ہے، جارج اور ان کا والد بھی تلاش میں مدد کرتے ہیں لیکن کچھ پتہ نہیں چلتا، رات گئے بچیوں کی لاشیں ملتی ہیں، ان کو آہنی آلے سے قتل کر کے لاشیں کھائی میں پھینکی گئی ہیں۔
عوام میں غم وغصہ پھیل جاتا ہے، بچیوں کی جارج کے ساتھ بات کرنے کی ’گواہی‘ آنے میں دیر نہیں لگتی، پولیس جارج کو گرفتار کرلیتی ہے، پھرایک پولیس اہلکار بتاتا ہے کہ جارج نے اقبال جرم کر لیا ہے، لوگوں میں اشتعال بڑھ جاتا ہے، گھر پر حملے کے ڈر سے اس کے رشتہ داروں کو علاقہ چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔
تراسی روزہ قانونی کارروائی کے بعد کیس جیوری کے سامنے پیش ہوتا ہے، پولیس اہلکاروں سے لے کر جیوری کے دس ارکان تک سب ہی سفید فام ہیں، جیوری صرف دس منٹ میں سزائے موت کا فیصلہ دے دیتی ہے، گرفتاری کے بعد جارج اپنے والدین سے ایک بار بھی نہ مل پاتا، اسے ایک سفید فام چارلس پلوڈن نامی سرکاری وکیل تو دیا گیا لیکن اس نے جارج کی کوئی مدد نہیں کی اور یوں وہ لمحہ آن پہنچا جس کی منظرکشی ابتدائی سطور میں کی گئی۔
بظاہر معاملہ ختم لیکن ختم نہیں ہوا تھا
ایشو پر عوامی سطح پر بات ہوتی رہتی، اس دوران صورت حال بھی بدلتی رہی، امتیازی قوانین کا خاتمہ ہوا۔ دو ہزار چار میں ایک شخص جو جارج کا ہم نام ہی تھا، نے اس کیس کو تنقیدی نظر سے جانچا اور کچھ خامیاں سامنے لانے کی کوشش کی، اس نے جارج سٹینے کے خاندان والوں کو تلاش کیا، جارج کی بہن ایمی زندہ تھی۔
اس نے بتایا کہ ’جب بچیوں سے بات ہوئی تب میں جارج کے ساتھ تھی،اس نے بچیوں کو نہیں مارا تھا۔‘ یہ گواہی اگر وہ ساٹھ سال قبل دے دیتی تو شاید جارج بچ جاتا لیکن اس وقت کون سنتا۔
کچھ عرصہ بعد سٹینے کے گھر والوں نے دوبارہ ٹرائل کے لیے درخواست دی، جو منظور ہوئی، تحقیقات کا آغاز ہوا تو یہ بات کھلتی چلی گئی کہ جارج کو انصاف نہیں ملا، اس وقت کے نسل پرستی پر مبنی قوانین کی وجہ سے سفید فاموں کے مقابلے میں جارج ایک آسان ہدف تھا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر کے اپنی گلو خلاصی کرائی۔ اسی طرح اس پبلک پرسیکیوٹر کے کردار کی بھی جانچ ہوئی جس نے جارج کو سرے سے بچانے کی کوشش ہی نہیں کی تو معلوم ہوا کہ وہ آنے والے دنوں میں الیکشن لڑنے والا تھا اور کسی طور سفید فاموں کی مخالفت مول نہیں لے سکتا تھا۔
کیس میں ایسے کئی نقائص سامنے آئے جن کا جارج کو فائدہ ہو سکتا تھا مثلاً اس کے خلاف کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا، آلہ قتل برآمد نہیں ہوا تھا، ایک چودہ سالہ لڑکے کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دو بچیوں کو قتل کرنے کے بعد گھسیٹ کر کھائی تک لے جائے اور کپڑوں پر خون کا نشان نہ ہو۔
اس پادری کا حلفیہ بیان بھی ڈھونڈ نکالا گیا جس نے کھائی سے لاشیں نکالی تھیں، اس نے لکھا تھا ارد گرد خون موجود نہیں تھا جواس بات کا ثبوت تھا کہ قتل کہیں اور ہوئے، پولیس تشدد سے لیے گئے اقبال جرم کی قانونی حیثیت نہیں، تحریری یا ریکارڈڈ اقبال جرم نہیں تھا، اس طرح کے اور بھی کئی نکات جن کا فائدہ جارج کو ہو سکتا تھا بشرطیکہ وہ سفید فام ہوتا یا پھر دور چالیس کی دہائی کا نہ ہوتا۔
ان تمام باتوں کے سامنے آنے کے بعد خاتون جج کیرمن ٹی مُلن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’جارج کے ساتھ زیادتی ہوئی اور کیس میں بھیانک غلطیاں کی گئیں، قتل اس لڑکے پر ثابت نہیں ہوتے، منصفانہ ٹرائل نہیں ہوا، دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، اس لیے آج 2014 میں 1944 کے فیصلے کو منسوخ کیا جاتا ہے لیکن یہ فیصلہ سننے کے لیے اس دور کا ایک آدھ فرد ہی زندہ تھا۔
2018 میں جارج سٹینے کی زندگی پر’ایٹی تھری ڈیز‘ نامی فلم بھی بنائی گئی۔ جارج امریکی تاریخ کے کم عمرترین موت کی سزا پانے والا قیدی تھے۔