پیر کو وکلاء نے بلوچستان بھر کی عدالتوں کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے پر ان کے آبائی صوبے بلوچستان سے وکلاءنے احتجاج کا آغاز کر دیا ہے۔
پیر کو وکلاء نے صوبے بھر کی عدالتوں کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
احتجاج کی کال بلوچستان بار کونسل، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ طور پر دی تھی۔ کوئٹہ میں ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ اینڈ سیشن کورٹ سمیت ماتحت عدالتوں میں وکلاء پیش نہیں ہوئے جس کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کر دی گئی۔
بلوچستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین راحب خان بلیدی کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے اردو نیوز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس واپس نہ لیا تو عید کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔
'جس طرح 2007ء میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے فیصلہ کن تحریک شروع کی گئی اسی طرح یہ نئی تحریک بھی کسی طور کمزور نہیں ہوگی۔'
بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین حاجی عطاء اللہ لانگو کے بقول عید کے فوری بعد بلوچستان بھر کے وکلاء کا نمائندہ اجلاس بلایا جائے گا اور اس کے بعد ملک بھر کی وکلاء تنظیموں کی کانفرنس کا انعقاد کریں گے جس میں احتجاجی تحریک کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
انہوں نے اردو نیوز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے واحد جج ہیں، ان کے خلاف ریفرنس سے بلوچستان کے وکلاء اور سول سوسائٹی سمیت ہر طبقے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حکومت ایسے اقدامات سے وفاق کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس سے بلوچستان کے احساس محرومی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔
عطاء اللہ نے مزید کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ پاکستان بنانے والے خاندان کے فرد ہیں جن کا کردار ہمیشہ بے داغ رہا ہے۔
'انہوں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ہمیشہ آزادانہ فیصلے دیے۔ 8 اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں وکلاء پر خودکش حملے کی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ یا فیض آباد دھرنا ہو، قاضی فائز عیسیٰ نے کسی دباﺅ کے بغیر اپنا فیصلہ سنایا اور یہی بات کچھ قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔'
بلوچستان سے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن منیر احمد کاکڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کی آڑ میں دائر کیا گیا ریفرنس دراصل پاکستان کی عدالتوں میں بغیر کسی دباﺅ اور آزادانہ طریقے سے فیصلے دینے والے ججز کو راہ سے ہٹانے کی سازش کا حصہ ہے۔
ان کے بقول قاضی فائز کے خلاف پہلے بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن وکلاء ان سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور عدلیہ کی آزادی چھیننے والوں کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے۔
خیال رہے کہ اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ اور دیگر الزامات کے تحت کارروائی کے مجاز فورم سپریم جوڈیشل کونسل نے حکومت کی جانب سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس کے کے آغا کو اپنا جواب جمع کرانے کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔ جن کے تحت ریفرنس پر ابتدائی کارروائی کے لیے 14 جون کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔