Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فریحہ ادریس کا کالم: عدلیہ، دباؤ اور قیمے والے نان

ایک بار پھر میاں نواز شریف عدلیہ کے مقابل کھڑے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر1 میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف اہم ترین مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان بینچ کے سربراہ ہیں، آج اہم ترین دن ہے کیونکہ وزیراعظم کے خلاف مقدمے کا فیصلہ متوقع ہے۔
اگر جرم ثابت ہو گیا تو وزیراعظم سزا پا کرعہدے سے نااہل ہو جائیں گے،  سارے ملک کی نگاہیں  سپریم کورٹ پر لگی ہیں۔ معروف سینیئر وکیل ایس ایم ظفر بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، اچانک باہر سے سینکڑوں افراد کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگی، ’میاں دے نعرے وجن گے، سجاد۔۔۔۔ ہائے ہائے، سجاد۔۔۔ ہائے ہائے۔‘
ہجوم سپریم کورٹ کی راہدریوں میں داخل ہوچکا تھا، اتنے میں دو صحافی گھبرائے ہوئے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہیں اور چیف جسٹس سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں کہ ’مائی لارڈ وہ آ رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس  اپنی نشست سے فورا کھڑے ہوئے، میاں نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کا شکریہ ادا کیا اور عدالت سے باہر نکل گئے۔ باقی جج بھی جان بچانے کے لیے باہر کی جانب بھاگے۔ چند لمحوں میں سپریم کورٹ کی عمارت کے اندر اور باہر ہر طرف مسلم لیگ ن کے بپھرے ہوئے کارکن دکھائے دے رہے تھے جن کی قیادت سیف الرحمن کر رہے تھے۔

نواز شریف اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ

جب پاکستان کی سب سے اعلیٰ ترین عدالت میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو میاں شہبازشریف اس وقت کیا کر رہے تھے؟ اس حوالے سے ان ہی کے ماضی کے ایک انتہائی قریبی ساتھی، چوہدری شجاعت حسین نے اپنی آپ بیتی ’سچ تو یہ ہے‘ میں ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ
’جب 28 نومبر 1997 کو سپریم کورٹ پرحملہ ہوا تو میاں شہباز شریف حملہ آوروں کو اسپیکر پر کہہ رہے تھے کہ ’تمام کارکن پنجاب ہاؤس سے کھانا کھا کرجائیں ، وہاں قیمے والے نانوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔‘

 

 چند روز قبل جب جسٹس سجاد علی شاہ نے میاں نواز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس بھیج کر طلب کیا تو میاں نواز شریف کیا سوچ رہے تھے ؟ ان کے ماضی کے ایک انتہائی قریبی رفیق  گوہر ایوب اپنی کتاب ’گلمپسس ان ٹو دی کاریڈورز آف پاور‘ میں لکھتے ہیں ’جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیرِاعظم کی چپقلش عروج پر پہنچ گئی تو وزیرِاعظم نے مجھے قومی اسمبلی میں اپنے چیمبر میں آنے کو کہا۔ میں پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ اس کے بعد وزیرِاعظم نے کہا کہ میں ان کے ساتھ وزیرِاعظم ہاؤس چلوں۔ راستے میں انہوں نے اپنا ہاتھ میرے گھٹنے پر رکھتے ہوئے کہا کہ گوہر صاحب مجھے کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ میں ایک رات کے لیے چیف جسٹس کو گرفتار کرکے جیل بھیج سکوں۔ میں نے کہا کہ خدا کے واسطے ایسا سوچیں بھی نہیں ورنہ پورا نظام ہل جائے گا۔ اس کے بعد نواز شریف خاموش ہوگئے۔‘ اس گفتگو کے چند دنوں بعد ہی سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا گیا۔ 

28 نومبر 1997 کو سپریم کورٹ پر دھاوا بولا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

قیمے والے نانوں کے بل پرہونے والے اس حملے کے کچھ عرصے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ اورتقریبا  پونے دوسال بعد وزیراعظم نوازشریف کو بھی رخصت ہونا پڑا، 28 نومبر1997 کےاس تلخ سانحے کو 22 برس گزر چکے ہیں مگر لگتا ہے ہم ابھی وہیں کھڑے ہیں ، بقول اقبال
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایک بار پھر میاں نواز شریف عدلیہ کے مقابل کھڑے ہیں، پانامہ کیس کے بعد سے مسلم لیگ ن کا تمام بیانیہ خلائی مخلوق اورعدلیہ کو نشانہ بنانے کے گرد گھوم رہا ہے، اس کیس کو مسلم لیگ ن نے قانونی نکات کے بجائے سیاسی بیانیے پر لڑا، کیس سے قبل ہی کئی بڑی غلطیاں کی گئیں، مریم نواز کے کہنے پرحسین نواز نے اپنے انٹرویو میں فلیٹوں کی ملکیت تسلیم کر لی،  میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں  یہ معاملہ حل کرنے کے بجائے، پارلیمنٹ سے بار بار خطاب کر کے اسے خود ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنا دیا۔اس دوران اگر میاں نواز شریف قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کردیتے تو جیسے ان کے دوست طیب اردوغان نے جون 2018 میں قبل از وقت انتخابات کروا کر اپویشن کی تحریک کو ٹھنڈا کر دیا تھا، یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا۔ لیکن پے در پے غلطیوں نے اس معاملے کو سپریم کورٹ تک پہنچا دیا اور اس کے بعد بات تاحیات نااہلی سے ہوتی ہوئی کوٹ لکھپت جیل تک جا پہنچی۔

28 نومبر1997 کےاس تلخ سانحے کو 22 برس گزر چکے ہیں مگر لگتا ہے ہم ابھی وہیں کھڑے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اب مسلم لیگ ن کی ساری توپوں کا رخ عدلیہ کی جانب ہے میاں نواز شریف ججوں کو بغض سے بھرے قرار دے چکے ہیں، مریم نواز بھی آخری حدوں تک جانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ احتساب عدالت کے جج کا کرادر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، ایک جج کس طرح اس سیاسی جماعت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتا رہا جس کے سربراہ کا مقدمہ ان کی عدالت میں تھا؟ اور کس بنیاد پر اس وقت کے وزیراعظم نے ان کا انتخاب کیا تھا؟
یہ ویڈیو عدلیہ کی ساکھ پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے، اور جس طرح مریم نواز دعوٰی بھی کر رہی ہیں یہ ایک بڑی مشکل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ویڈیو سکینڈل کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں اس سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن عدلیہ کے پورے ادارے کو نشانہ بنانے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
عدلیہ بحالی تحریک کا سہرہ اپنے سر باندھنے والے میاں نوازشریف نو سال بعد اسی ادارے پر برہم ہیں، مگرجسٹس سجاد علی شاہ کے دورکی سپریم کورٹ اور ۤآج کی اعلی عدلیہ کے درمیان 22 سال کا فاصلہ ہے جس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔
جج کی مبینہ ویڈیو مریم نوازکی جانب سے ایک بہت بڑا جوا سمجھا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے آخری حد پر جا کر سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، کیونکہ ان کے پاس کھونے کو اب کچھ بھی باقی نہیں رہا  اور شاید اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں بچا تھا۔ وہ عدلیہ پر دباؤ کے تحت فیصلے دینے کا سنگین الزام لگا رہی ہیں۔ اب معاملہ عدلیہ کے پاس ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قیمے والے نانوں سے ویڈیو سکینڈل تک، اس دیرینہ کشمکش کا انجام کیا ہو گا؟

شیئر: