پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی پیر کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلی ملاقات ہونے جا رہی ہے جس سے قبل انھوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب میں کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے سامنے قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق وزیراعظم کی ملاقات دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہوگی اور دورے کا بنیادی مقصد بھی دو طرفہ تعلقات کی بحالی ہی ہے تاہم اس میں علاقائی امور پر بات چیت بھی ہوگی تو دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے سینیئر حکام کے مطابق ملاقات میں علاقائی امن و استحکام ترجیح قرار دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ باہمی تجارت پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان اس ملاقات کے حوالے سے اتنے پر اعتماد کیوں ہیں؟ اس پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ’امریکہ کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اگر ان کے دو طرفہ سٹریٹیجک تعلقات آگے نہ بھی بڑھیں تو بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔‘
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ جنوبی ایشیا بارے امریکی پالیسی میں پاکستان بارے منفی نکات شامل کیے گئے تھے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ پاکستان سے ری انگیج کرنا چاہیے۔‘
جلیل عباس جیلانی نے کہا آج ہونے والی ملاقات اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ امریکہ کے انڈیا سے تعلقات بھی نیچے چلے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ انڈیا کے ایران سے تیل کی درآمد ، روس کے ساتھ ہتھیاروں کے معاہدے اور انڈیا میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے خائف ہے جس سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہی بات وزیر اعظم کے اعتماد کا باعث ہے۔‘
سابق سفیر شاہد ملک وزیراعظم کے اعتماد کی وجہ افغان مفاہمتی عمل اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کو قرار دیتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’دنیا پاکستان سے ان اقدامات کا کہا کرتی تھی اور ہم نہیں اٹھاتے تھے اب پاکستان نے سہولت کاری کا کام بھی بہترین انداز میں کیا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان حالیہ اقدامات بھی دنیا کے سامنے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’امریکہ کی اس وقت سب سے بڑی ترجیح افغانستان سے افواج کا انخلا ہے اور پاکستان اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘
تحریک انصاف کا جلسہ، کتنا مفید؟
وزیر اعظم نے واشنگٹن میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام ایک جلسے سے خطاب بھی کیا ہے جس میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے شرکت کی اور وزیر اعظم نے دھواں دار خطاب بھی کیا ہے۔
سابق سفیر جلیل عباس جیلانی کہتے ہیں کہ جلسے کی کامیابی دورے کے مجموعی نتائج پر ضرور اثر انداز ہوگی کیونکہ جب امریکی انتظامیہ دیکھے گی کہ پاکستانی وزیراعظم پاکستانی امریکی میں اتنا مقبول ہے تو وہ ان سے مزید احترام سے بات کریں گے کیونکہ پاکستان امریکن وہاں پر ایک سیاسی طاقت ہیں۔
سابق سفیر شاہد ملک نے بھی جلسے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکن نے اپنی پیشہ وارانہ تنظیمیں اور لابیز تشکیل دے رکھی ہیں جن کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹرمپ عمران ملاقات میں سینیٹر لنڈسے کا اہم کردار ہے کیونکہ ان کے حلقہ انتخاب میں ہزاروں پاکستانی ہیں اور وہ اپنے ووٹرز سے کیا گیا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس جلسے کا امریکی انتظامیہ کو اچھا میسیج جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
عمران ٹرمپ ملاقات، آرمی چیف ہمراہ ہوں گےNode ID: 426536
-
’ٹرمپ کے سامنے قوم کوشرمندہ نہیں ہونے دوں گا‘Node ID: 426571