Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا شمالی خطہ جُبہ اور الشویمس حیرت انگیز مناظر کا خزانہ

آثار قدیمہ کے حوالے سے مہم جوئی کے شوقین افراد کے لیے بہترین مقام ہے۔ فوٹو عرب نیوز
سعودی عرب کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں سب سے پہلے مقدس اسلامی مقامات مکہ اور مدینہ کے ساتھ ریاض اور جدہ جیسے مصروف شہر آتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق مملکت کے شمالی خطے کی زمین قدیم تاریخ کے اسرار سے مالا مال ہے جو سیاحوں کی نظروں سے اکثر اوجھل رہتا ہے۔
ماضی کی تلاش کے مہم جو سیاحوں کے لیے نجد کے شمال میں واقع یہ علاقہ حیرت انگیز مناظر کا خزانہ ہے۔
حائل ریجن کے شمال مغرب میں موجود جُبہ اور الشویمس کے علاقے اپنی انتہائی قدیم اور تاریخی یادگاروں کے لیے مشہور ہیں۔
سعودی ماہر آثار قدیمہ حسین الخلیفہ علاقے کے سربستہ راز اور چھپے ہوئے خزانوں کے بارے میں تحقیق کا 30 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ 
حسین الخلیفہ نے بتایا ہے ’ الراعت اور المنجور علاقے کے دو قدیم ترین پہاڑ ہیں، دونوں پہاڑوں کی چٹانوں پر مختلف جانوروں اور شیروں کی تاریخی تصاویر کے نقوش پائے جاتے ہیں۔
یونیسکو نے حائل ریجن کے دونوں پہاڑوں کی چٹانوں پر کندہ آرٹ کے نمونوں کے باعث ان مقامات کو عالمی ورثہ میں شامل کیا ہے۔

جانوروں  کے نقوش کی تاریخ  7200 سال قدیم بتائی جاتی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

چٹانی فن کی شکل کا یہ قدیم آرٹ الشویمس اور جُبہ سے ہوتا ہوا الجوف کے علاقے میں الثول پہاڑ تک پھیلا ہوا ہے۔
تاریخی حوالہ دیتے ہوئے حسین الخلیفہ نے وضاحت کی ہے ’ ہزاروں سال قبل ہجرت کے ذریعے یہ آرٹ دو دیگر شہروں میں بھی پھیل گیاجب زمانہ قدیم میں یہاں بسنے والے حائل سے دومتہ الجندل اور تبوک کی جانب ہجرت کر گئے تھے۔
حائل کے قریب ایک اور قدیم دریافت ’فید‘ کا علاقہ ہے جو عازمین حج کے راستے کے مرکز میں واقع ہے،مقامی لوگ اسے ’درب زبیدہ‘ کے نام سے جانتے ہیں، اس راستے سے حجاج عراق کے شہر کوفہ سے مدینہ منورہ کا سفر کرتے تھے۔

قدیم آرٹ الشویمس اور جُبہ سے الجوف میں الثول پہاڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

سعودی ماہر آثار قدیمہ نے بتایا ’فید بھرپور اسلامی تاریخ کے لیے مشہور ایک خوبصورت علاقہ ہے جو حج کے راستوں کے اہم مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور میرے لیے قابل فخر ہے کہ  ریاض سے بذریعہ کار اس مقام کو دریافت کیا۔‘
الجوف ریجن میں سکاکا سے 45 کلومیٹر دور الشویحطیہ کا علاقہ بھی آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے لیے پُرکشش تاریخی مقام ہے۔
اس علاقے کی تاریخ 13 لاکھ سال پرانی ہے جو دنیا کے قدیم ترین آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک اور جزیرہ نما عرب اور ایشیا میں انسانی آبادکاری کا سب سے قدیم مقام مانا جاتا ہے۔ 
لاکھوں سال قبل انسانی تاریخ میں آنے والے  پتھر سے بنے آلات کی مدد سے چٹانوں پر نقش ان تصاویر سے حقیقی لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں ایسے ماہر کے ساتھ جانا چاہیے جو اس علاقے کی تاریخ جانتا ہو۔

علاقے کی 13 لاکھ سال پرانی تاریخ دنیا کے قدیم ترین آثار قدیمہ ہے۔ فوٹو عرب نیوز

سکاکا کے شمال مشرقی جانب چٹانوں پر اونٹوں  اور دیگر جانوروں  کے نقوش موجود ہیں ان نقوش کی تاریخ  تقریباً 7000 سے 7200 سال قدیم بتائی جاتی ہے۔
ماہر آثار قدیمہ نے وضاحت کی ’یہ علاقہ ماحولیاتی سکیورٹی کے ذریعے مانیٹر کیا جا رہا ہے لہذا اس علاقے کا دورہ کرنے کے لیے ہیریٹیج کمیشن سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
حسین الخلیفہ کا کہنا ہے اگر آپ مہم جوئی کے شوقین ہیں، تاریخ  یا ثقافت کے دلدادہ ہیں تو آثار قدیمہ کے حوالے سے سعودی عرب کا شمالی علاقہ ایکسپلور کرنے کے لیے بہترین مقام ہے۔

 

شیئر: