پر ایک بات طے ہے کہ کشمیر سکم نہیں ہے کہ جسے اندرا گاندھی نے صرف پانچ گھنٹے میں ہڑپ کر لیا (فوٹو اے ایف پی)
مجھے اب تک ایک سنگل کشمیری مسلمان کی تلاش ہے جو کہے امیت شاہ زندہ باد۔
کانگریس نے پچھلے 65 برس میں کشمیر کی خود مختاری کے ضامن آرٹیکل 370 کا انڈہ کتر کتر کے زردی پی لی اور اس آرٹیکل کو عملاً خالی خول میں بدل دیا کہ جسے بی جے پی نے پانچ اگست کو توڑ ڈالا۔ آج کانگریس اس اقدام کو بھارتی آئین کا قتل اور جمہوریت کے لیے سیاہ دن بتا رہی ہے مگر یہ ایک ایسی ردالی کا سیاپا ہے جسے اب کوئی میت پر رونے کے لیے بھی نہیں بلاتا۔
امیت شاہ نے کشمیر کا خصوصی تشخص ختم کرنے کی جو تاویلات پیش کیں ان پر ایک زبردست تبصرہ معروف تمل رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن وائکو نے شیکسپیئر کا سہارا لیتے ہوئے کیا ’ایک ہزار عربی عطریات بھی لیڈی میکبتھ کے چھوٹے سے ہاتھ کو خوشبو نہیں دے سکتے یہ منظر آج ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، جب میں نے حال ہی میں (کشمیر میں) اتنی بڑی تعداد میں فوج بھیجے جانے کا سنا تو میرے دل نے کہا کاش کشمیر کوسوو، مشرقی تیمور یا جنوبی سوڈان نہ ہو جائے، مگر یہ ہو گیا۔‘
ویسے تو طاقت صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتی ہے لیکن اگر کسی کو یہ اقدام انڈیا یا انڈیا سے باہر کی کسی عدالت میں چیلنج کرنے کا شوق ہے تو صرف ایک ہی مضبوط دلیل بچی ہے۔ وہ یہ کہ آرٹیکل 370 میں کوئی بھی ترمیم و تبدیلی جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔
پانچ اگست کو جب آرٹیکل 370 سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس وقت ریاست میں صدر راج نافذ تھا نہ وزیرِ اعلیٰ کا وجود تھا نہ ہی مقامی مقننہ کا، لہٰذا وزیرِ داخلہ امیت شاہ کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ انہوں نے اس اعلان سے پہلے جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کی رضامندی حاصل کر لی تھی، گورنر کی رضامندی کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ گورنر مرکز کا نامزد نمائندہ ہوتا ہے نہ کہ ریاست کا منتخب نمائندہ۔
خود گورنر ستیہ پال ملک نے امیت شاہ کی تقریر سے دو روز قبل تین اگست کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ہاتھ نہیں لگایا جا رہا۔ اس بارے میں جو بھی کہا جا رہا ہے وہ محض افواہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو گورنر کو بھی مرکزی حکومت نے آخری وقت تک اندھیرے میں رکھا یا پھر گورنر یا وزیرِ داخلہ امیت شاہ میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہا ہے۔
اب کیا ہوگا ؟ جموں کشمیر کی ریاست جو پہلے ہی انڈیا اور پاکستان میں بٹی ہوئی ہے اس کی مزید تقسیم ہو گئی ہے۔ نئے منصوبے کے مطابق نہ صرف اس ریاست کی نیم خود مختارانہ حیثیت ختم ہو گئی ہے بلکہ اسے کسی بھی دوسری انڈین ریاست کا درجہ بھی نہیں مل سکا۔ اب یہ علاقہ صدر کے براہ راست ماتحت دو یونین ٹیرٹریز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ایک یونین ٹیرٹری یعنی جموں و کشمیر کی اسمبلی کو وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو مرکز کے ماتحت علاقے دہلی کی اسمبلی کو حاصل ہیں جبکہ لداخ کو اسمبلی کے تکلف سے بھی آزاد کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لداخ کے علاقے کرگل کی مسلمان آبادی اب سیاسی و انتخابی طور پر جموں و کشمیر میں شمار نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی کوئی نمائندگی ہو گی۔ مسلمان اکثریت صرف وادی تک محدود ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلا ہر وزیرِ اعلیٰ جموں سے ہوگا جہاں ہندو اکثریت ہے۔
امیت شاہ نے ایک جواز یہ بھی دیا کہ آرٹیکل 370 ریاست میں بیرونی صنعتی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ اس رکاوٹ کے دور ہونے سے اب انڈین صنعت کار پیسہ لگائے گا اور یہاں کے نوجوانوں میں بے روزگاری ختم ہو جائے گی۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ ’جب کھڑکی کھلتی ہے تو ہوا کے ساتھ مکھیاں بھی گھس آتی ہیں‘۔ اب یہاں کوئی بھی انڈین باشندہ زمین خرید سکے گا اور آباد ہو سکے گا۔ یوں اگلے دس برس میں آبادی کا نقشہ اور وسائل کی منتقلی اتنی تیزی سے ہو گی کہ کشمیر کا مسئلہ ہی باقی نہ رہے گا۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ آج کے بعد دنیا ختم نہیں ہو جائے گی۔ کوئی بھی قانون آزادی کی خواہش سے بڑا نہیں ہوتا۔ ورنہ تو مقبوضہ علاقوں میں اتنی ساری یہودی بستیوں کی تعمیر، یروشلم کی دو حصوں میں تقسیم اور گولان کو اسرائیل میں ضم کرنے کے فیصلے کے بعد فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو جائز اور قانونی بن جانا چاہیے۔
1975 میں جب پرتگال نے مشرقی تیمور کو آزادی دی تو انڈونیشیا نے موقع پا کر اسے ہڑپ کر لیا اور ایک ہی برس بعد اسے انڈونیشیا کا ستائیسواں صوبہ قرار دے دیا مگر مشرقی تیمور اور انڈونیشیا ایک دوسرے کو ہضم نہ کر سکے چنانچہ 1999 میں اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والے ریفرینڈم کے ذریعے انڈونیشیا کو اپنا ’ستائیسواں صوبہ‘ آزاد کرنا پڑا۔
1830 میں فرانس نے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ 18 برس بعد الجزائر کو فرانس کا صوبہ قرار دے دیا گیا۔ گورے فرانسیسی اس صوبے میں بے فکری سے بسنے لگے اور معیشت پر چھا گئے مگر 146 برس بعد مقامی الجزائری پھٹ پڑے۔ اگلے آٹھ برس فرانس نے مزاحمت کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔ دس لاکھ الجزائری ہلاک ہو گئے مگر 1962 میں ڈیگال کو بھاری دل کے ساتھ اپنا یہ ’پیارا صوبہ‘ آزاد کرنا پڑا اور دس لاکھ گورے فرانسیسیوں کو اپنے اصل وطن واپس لوٹنا پڑا۔
مطلب کیا ہوا؟ مطلب یہ ہوا کہ نوآبادیاتی طاقت بھلے کوئی بھی قانونی و غیر قانونی ہتھکنڈہ اپنا لے، کسی بھی طرح کا دستوری ڈرامہ کر لے جب تک اسے وارا کھاتا ہے تب تک وہ قابض رہتی ہے اور جیسے ہی معاشی، سیاسی و سفارتی نقصان ناقابلِ برداشت ہونے لگتا ہے اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔ جتنی بھی نوآبادیات آج تک آزاد ہوئی ہیں وہ سامراجی مہربانی سے نہیں بلکہ مجبوری میں آزاد کی گئیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کشمیر میں انڈیا کب تک اتنی قیمت ادا کرتا رہے گا جو اس کے لیے قابلِ برداشت رہے۔
پر ایک بات طے ہے کہ کشمیر سکم نہیں ہے کہ جسے 1975میں اندرا گاندھی نے صرف پانچ گھنٹے میں ہڑپ کر لیا اور چیخ بھی سنائی نہ دی۔