Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی کے کھمبوں سے لپٹی لاشیں

کراچی جیسے بڑے شہر کو سیاست کی نظر کر کے بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں بلکہ مل جل کر مسائل کا حل تلاش کریں۔
گزرے وقتوں میں بادشاہ بالخصوص مصری بادشاہ اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروانے کے بعد ان کی لاشیں شہر کے بیچوں بیچ کئی کئی دن تک لٹکا دیتے تھے۔
یہ تو چلیں پرانی بات ہو گئی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ سوات میں طالبان نے بھی مخالفین کی لاشیں کھمبوں پر لٹکانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کھمبوں سے لٹکتی لاش کے ساتھ طالبان کا ایک دھمکی آمیز رقعہ بھی منسلک ہوتا تھا جس پر لاش کو اتارنے کی مقررہ تاریخ درج ہوتی اور مقررہ دن سے پہلے لاش اتارنے والے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتیں۔
اس کا مقصد اپنے خوف کا سکہ جمانا اور عوام کے دلوں پر اپنی ہیبت بٹھانا ہوتا تھا۔
آج کل شہر قائد میں کھمبوں سے لاشیں لٹکانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے. کراچی میں نصب ’کے الیکٹرک‘ کے ان  کھمبوں کا مقصد بھی شاید وہی ہے۔ بس کبھی کبھار اس سے بجلی کی فراہمی کا اضافی مقصد بھی حاصل کیا جاتا ہے۔
ایک طرف عید سے پہلے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری انڈین بربریت کے سیلاب میں خوشیاں بہہ گئیں تو دوسری جانب حالیہ بارشوں کے نتیجے میں پورا کراچی پانی میں ڈوب گیا اور کرنٹ لگنے سے عوام کو کھمبوں سے لپٹی لاشیں اٹھانا پڑ رہی ہیں۔
بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی اور بربادی دیکھنے میں آئی اس نے ہر ذی روح کو تڑپا کے رکھ دیا۔ اتنے گھروں میں عید سے قبل ہی صف ماتم بچھ گئی لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔
سوال یہ ہے کہ حادثات میں جو ہلاکتیں ہوئیں اس کا ذمہ دا کون ہے؟ اس غم کی گھڑی کا ان ماؤں سے پوچھیں جن کے لخت جگر حکومت اور ’کے الیکٹرک‘ کی غفلت کی وجہ سے اپنے والدین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کو قصور وار ٹھہرا رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی، ساری ذمہ داری پیپلزپارٹی پر ڈال رہی ہے۔ صرف مذمت کر دینے سے یا بڑی بڑی گاڑیوں میں پورے شہر کا دورہ کرنے اور فوٹو سیشن کروا لینے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کے بجائے تمام جماعتوں اور اداروں کو مل جل کر مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی کو آفت زدہ قرار دینے کا مطالبہ تو کیا اور ان کی کوششوں سے شہریوں کو کرنٹ لگنے سے ہلاکت پر ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا لیکن کوئی میئر صاحب سے یہ سوال کرے گا کہ آپ نے اب تک کراچی کے کتنے اور کون کون سے مسائل حل کیے میئر صاحب؟

کراچی میں حالیہ بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ جو جانیں چلی گئیں، ان کا حساب کون دے گا؟ کراچی میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس معاملے کو سیاست کی نظر اور ایک دوسرے پر بیان بازی کرنے کے بجائے اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ حادثات کیوں پیش آئے اور ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر ذمہ دار واقعی کے الیکٹرک ہے تو اس کے محاسبے کی ضرورت ہے۔
افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہمارے صدر صاحب کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ پھر بھی کراچی سیاست کی نظر ہو رہا ہے اور کروڑوں لوگوں کو ماں کی طرح اپنی آغوش میں پالنے والے شہر کے ساتھ یتیموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
خدارا! کراچی جیسے بڑے شہر کو سیاست کی نظر کر کے بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں بلکہ مل جل کر مسائل کا حل تلاش کریں. آخر کب تک ہماری لاشیں کھمبوں سے لپٹتی رہیں گی۔ کب تک ہم تاریخ کے سینے پر وہی پرانی تحریر رقم کرتے رہیں گے؟

شیئر:

متعلقہ خبریں