انڈیا کی معیشت کو پانچ کھرب ڈالر سے تجاوز کرانے کا اعلان خواب ہی نظر آتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
1929 کی عظیم عالمی کساد بازاری کے بعد آنے والے 2008 کے سب سے بڑے عالمی معاشی بحران سے انڈیا بال بال بچ گیا تھا اور اس کی معاشی ترقی کی رفتار سست نہ پڑ سکی لیکن اب انڈیا کی معیشت کے ساتھ سب کچھ ٹھیک نظر نہیں آ رہا ہے۔
پیر کو جب بازارِ حصص کھلا تو اس میں قدرے تیزی نظر آئی لیکن انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے موقع پر جو بازار 40 ہزار کا ہندسہ پار کر چکا تھا وہ اب دو ہزار پوائنٹس نیچے گر چکا ہے۔
پیر کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی اور اب ایک ڈالر کی قیمت 72 روپے 25 پیسے ہے۔ دوسری جانب سونے اور چاندی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور پہلی بار سونے کی قیمت 40 ہزار روپے فی تولہ تک پہنچ گئی ہے جب کہ چاندی بھی اپنی ریکارڈ قیمت پر ہے۔
اس نئی پیش رفت سے قبل ممبئی کی کیئر ریٹنگز کے تازہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ انڈیا میں کاروبار کی صورت حال تشویش ناک ہے اور شاید اسی وجہ سے حکومت نے انڈیا کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے جمعے کو متعدد اقدامات کا اعلان کیا لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ان حکومتی اقدامات سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اقتصادیات کے ماہرین، مالیات کے سرکردہ افراد، انڈسٹری کے ایگزیکٹو اور مقامی میڈیا نے ان اقدامات کے مؤثر ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان اقدامات میں بیرون ملک سے آنے والے فنڈز پر لگائے جانے والے ٹیکس کے خاتمے، گاڑیوں کے خریدنے پر مراعات اور سرکاری بینکوں کو 700 ارب روپے کی امداد میں تیزی وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرین ان اقدامات کو 'عارضی اور قلیل مدتی اقدام' کہہ رہے ہیں اور ان کے خیال میں انڈیا کو اپنے اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔
کیئر ریٹنگس نے حالیہ دنوں ڈھائی ہزار سے زیادہ کمپنیوں کی ترقی کے اعدادوشمار جاری کیے۔ اس کی ریٹنگس کے مطابق 20-2019 کے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ان کمپنیوں کی ترقی کی رفتار 4.6 فیصد رہی جبکہ گذشتہ سال اسی سہ ماہی میں ان کمپنیوں کی ترقی کی رفتار 13.5 فیصد تھی۔
کیئر ریٹنگس کے مطابق ان کمپنیوں کے منافع کی شرح 6.6 فیصد رہی جبکہ گذشتہ سال اسی سہ ماہی میں ان کمپنیوں کا منافعے 24.6 فیصد تھا۔ کیئر ریٹنگس نے بتایا کہ بڑی کمپنیوں کے منافعے میں مزید کمی آئی ہے۔ یعنی جن کمپنیوں کی فروخت ڈھائی سو کروڑ سے زیادہ ہے ان کے منافعے پہلی سہ ماہی میں 11.2 فیصد رہے جبکہ گذشتہ سال ان کے منافعے 46.6 فیصد تھے۔ ان کی فروخت میں بھی اضافہ نہیں دیکھا گیا۔
سب سے پہلے انڈیا کی معیشت کی سست رفتاری کا اشارہ آٹوموبائلز کے شعبے سے ہوا لیکن اکانومک ٹائمز میں اینڈی مکرجی لکھتے ہیں کہ جب انڈیا کی سنیکس کے بازار یہ کہنے لگیں کہ لوگ بسکٹ پر پانچ روپے خرچ نہیں کر سکتے تو یہ بحث بے کار ہے کہ قومی معیشت کیوں سست رفتاری کا شکار ہے۔
انڈیا میں بسکٹ بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بریٹینیا انڈسٹریز لمیٹڈ نے ملکی سطح پر اپنی مصنوعات کی فروخت میں تیزی سے کمی کی شکایت کی تھی جبکہ اس کی مدمقابل بسکٹ کمپنی پارلے پراڈکٹس پرائیوٹ لمیٹڈ نے بھی اس بات کی شکایت کی اور کہا کہ دس ہزار ملازمین کی نوکری جا سکتی ہے۔ پارلے نے انڈیا کے ٹیکس کے نئے نظام گڈز اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جو پہلے مودی حکومت میں 2017 میں متعارف کرایا گیا تھا۔
انڈیا میں معیشت کی سست رفتاری کی ابتدا 8 نومبر 2016 کی نوٹ بندی کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی جسے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے 'منظم لوٹ پاٹ' سے تعبیر کیا تھا لیکن حکومت نے اس سے انکار کیا تھا۔ اس کے بعد سے کئی رپورٹس میں آيا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے غیر منظم شعبے کو اور چھوٹے کاروباریوں کو بہت نقصان ہوا ہے لیکن حکومت اس کی بھی نفی کرتی رہی۔ حکومت نے جی ایس ٹی کو کامیابی قرار دیا لیکن اب حکومت کی جانب سے ملکی معیشت کو طاقت فراہم کرنے کے اقدامات بتاتے ہیں کہ حکومت نے بھی معاشی ترقی کی رفتار میں سست روی کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایسے میں انڈیا کی معیشت کو پانچ کھرب ڈالر تک لے جانے سے کا حکومتی اعلان خواب ہی نظر آتا ہے۔