جنرل جوزف کے مطابق کوشش کی جا رہی ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہ بنے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے اعلیٰ عہدیداروں نے کہا ہے کہ امن معاہدہ طے پانے کے بعد طالبان کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے۔
ایک ماہ قبل پینٹاگون کے سربراہ بننے والے امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ قطر میں جاری مذاکرات میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اب افغانستان امریکہ پر حملہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے۔
دوسری طرف امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں تک جنگ لڑنے کے بعد اب 13 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی کے معاہدے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ داعش، القاعدہ اور امریکہ کی جانب سے نامزد کردہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت مل جائے۔
ایسپر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل جوزف نے مزید کہا ہے کہ ’میں امریکی فوج کے لیے اس وقت انخلا کا لفظ استعمال نہیں کر رہا۔ تاہم ہم کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہ بنے اور یہاں امن و امان قائم ہو۔‘
جوزف کے بقول افغان مسئلے کا حل ایسے مذکرات کے ذریعے نکالنے کی ضرورت تھی جس میں امریکہ ہی نہیں بلکہ افغانستان بھی شامل ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’افغانستان میں موجودہ صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ میری سوچ میں ایک ایسا معاہدہ ہے جس سے بین الافغان مذاکرات شروع ہوں اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔‘
اس سوال پر کہ کیا آئندہ برسوں میں امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی فورسسز داعش کے ساتھ لڑنے کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گی، جنرل جوزف کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کچھ شرائط کی بنیاد پر ہوگا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا نواں مرحلہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہے۔
اس حوالے سے چند روز قبل دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکہ افغانستان میں موجود اپنی فوج کے انخلا کے معاملے پر تھوڑی سی اور لچک دکھائے تو اس کے ساتھ امن کا معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جیسے ہی امریکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کا معاملہ طے ہو گا، طالبان معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
طالبان کے ترجمان نے بتایا تھا کہ مذاکرات کے نویں مرحلے میں معاہدے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات چیت ہو رہی ہے جس میں امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا اور اس کے ٹائم فریم کی شرط انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
’امریکی افواج کب نکنا شروع ہوں گی؟ کتنے فوجی کن اڈوں سے نکلیں گے؟ اور فوجیوں کا مکمل انخلا کب تک ممکن ہو گا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہمارے لیے جاننا بہت اہم ہے۔‘
واضح رہے کہ دوحہ میں جاری امن مذاکرات میں دونوں فریق چار نکات کے عمل درآمد کے طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں جن میں امریکی فوج کے انخلا کے علاوہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز اور طالبان کا جنگ بندی کا اعلان شامل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حتمی معاہدے کے لیے زیرِ بحث ایک اور اہم نکتہ یہ رہا ہے کہ القاعدہ اور دیگر عالمی دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کی سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کریں گی۔
اس حوالے سے سہیل شاہین نے کہا تھا کہ معاہدے کے نفاذ کے بعد طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی عسکری گروپ افغانستان کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔
دوسری طرف جوں جوں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ممکنہ امن معاہدہ ہو جانے کا وقت قریب آ رہا ہے افغان خواتین کے تحفظات اور اندیشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
افغان خواتین کے یہ تحفظات بیس برس پہلے کے ان واقعات اور حالات پر مبنی ہیں جن میں وہ حالات کے رحم و کرم پر تھیں۔
کابل میں زندگی تو معمول پر ہے، خواتین پر بھی کوئی پابندی نہیں مگر گزشتہ دہائیوں میں اپنے پیاروں کو کھونے، سنگساری، سکول جانے پر پابندی، گھر سے بغیر محرم کے نکلنے کے انجام کا ڈر اور قتل ہونے جیسے واقعات اب بھی ان کے ذہنوں پر نقش ہیں۔
انہی واقعات کی وجہ سے ان خواتین کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اگر امن معاہدہ ہوتا ہے اور اگر افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کے لیے بیٹھتے ہیں تو ان کے حقوق کو تحفظ دیا جائے۔