Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹاس نے بچایا‘، وہ افراد جو ٹائٹینک پر سوار ہوتے ہوتے رہ گئے تھے

سانحے کے بعد کئی ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے ٹکٹس خریدی تھیں مگر سوار نہ ہو سکے تھے (فوٹو: پک کلک)
ٹائٹینک کی راہداریوں میں یخ بستہ مائع موت سے دیوانہ وار بھاگنے والوں کے ذہنوں میں یہ خواہش تو یقیناً ہو گی کہ ’کاش وہ اس پر سوار ہی نہ ہوتے۔‘ مگر کچھ خوش نصیب ایسے بھی تھے جنہوں نے ٹکٹس تو لیے تھے مگر سوار نہ ہو پائے۔
انگریزی کی مشہور تاریخی ویب سائٹ لسٹ ورس نے چند ایسے افراد کی فہرست شائع کی ہے بمع ان وجوہات کے، جن کی بدولت وہ دردناک موت سے بچے۔
رپورٹ کے مطابق واقعے کے بعد بے شمار ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بھی سفر کرنے والے تھے، جن کو میڈیا نے ’جسٹ مسڈ کلب‘ میں شامل کرنا شروع کیا، تاہم جہاز کے ریکارڈ کے مطابق سب کی تصدیق نہیں ہو سکی اور گنتی کے افراد ہی سامنے آئے۔
’ٹاس نے بچا لیا‘
یہ تین امیر دوستوں کا گروپ تھا جس میں بیرون ایم وون، پی ڈی لا وائلیسٹریکس اور مورس بریوارڈ شامل تھے۔ وہ دنیا کی سیر کے لیے ٹائٹینک پر نکلنا چاہ رہے تھے۔

بیرون ایم وون اور دوستوں نے ٹائٹینک پر سفر کرنے یا کسی اور جہاز سے جانے کے لیے ٹاس کیا تھا (فوٹو: لسٹ ورس)

حادثے کے بعد انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے ٹائٹینک کے ذریعے جانے کا پروگرام بنایا تھا تاہم اس کی پہلی روانگی میں ابھی کچھ روز باقی تھے۔ ہم میں سے ایک کا خیال تھا کہ ٹائٹینک کا انتظار کیا جائے اور ایک کا موقف تھا کہ کسی دوسرے جہاز سے نکل جایا جائے جبکہ تیسرا کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا تھا اس لیے ہم نے ٹاس کرنے کا سوچا جو اس کے ارادے کا تعین کرے گا۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے سکے کو ہوا میں اچھالا تو ٹیل آیا، جس کا مطلب تھا کہ ٹائٹینک کا انتظار نہ کیا جائے۔‘
اگر یہ ٹاس نہ ہوتا تو وہ یقینا ٹائٹینک پر سوار ہوتے۔
’کیبن تسلی بخش نہیں‘
یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے کرنل جے ویرن ہیچنز، جے ایف کلیفرڈ ولسن، اور بیٹیوں ڈوروتھی اور ایڈیتھ ولسن کی زندگیاں بچائیں۔ یہ لوگ بکنگ کے بعد سفر سے ایک روز قبل جہاز کا جائزہ لینے پہنچے تھے، اور کچھ دیر بعد یہی الفاظ ادا کرتے ہوئے کرنل ویرن اور دیگر افراد نے بکنگ کینسل کر دی تھی۔  

ایک فیملی نے کیبنز کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سفر سے انکار کر دیا تھا (فوٹو: روبولکس)

تاخیر مہربان ٹھہری
فرانس میں امریکہ کے سفیر رابرٹ بیکن نے ٹائٹینک میں اپنے، اہلیہ اور بیٹی کے لیے ریزرویشن کروائی تھی تاہم نئے سفیر مائرون ٹی ہینڈریک کی آمد میں کچھ تاخیر ہو گئی جس کی وجہ سے ان کو اپنا سفر کا پروگرام آگے کرنا پڑا اور وہ بیس اپریل کو ایک اور جہاز ایس ایس فرانس کے ذریعے روانہ ہوئے۔  

’کوئی خاص وجہ نہیں تھی مگر۔۔۔‘

نارمن کریگ سکاٹ لینڈ کے رکن پارلیمنٹ تھے اور ٹائٹینک میں بکنگ کروائی تھی۔ جہاز ڈوبنے کے بعد خیال ظاہر کیا گیا کہ وہ اس پر سوار تھے، تاہم یہ سفر انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ میں کیوں نہیں گیا، اس کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ مجھے کوئی پراسرار پیشنگوئی ملی تھی نہ ہی میں نے کوئی خواب دیکھا تھا لیکن اتنا ضرور تھا کہ بس آخری موقع پر ایسا لگا جیسے میں جانا نہیں چاہتا تھا۔‘

نارمن کریگ کا کہنا تھا کہ ٹکٹ لینے کے باوجود مجھے ایسا لگا کہ مجھے سوار نہیں ہونا چاہیے (فوٹو: لسٹ ورس)

 دوست کا مشورہ نہ مانا
جیمز مارٹن گرے ایک پادری اور موڈی بائبل انسٹی ٹیوٹ کے صدر تھے جو امریکہ کے چرچ میں ہونے والی گریجوایشن کی تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔ اس وقت ان کے ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ یہ سفر ٹائٹینک پر کریں، تاہم اس نے ایک روز کی تاخیر سے جانا تھا، انسٹی ٹیوٹ کا صدر ہونے کی حیثیت سے ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ پروگرام کو ایک روز آگے کر دیتے، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ٹائٹینک کی روانگی کا انتظار کرنے کے بجائے ایک اور جہاز میں روانہ ہو گئے۔
ناول نے بچایا
ایڈگر سلوائن بیسویں صدی کے اوائل میں امریکی تھیٹر کا ایک بڑا نام تھے، انہوں نے بعض فلمیں بھی بنائیں تاہم ایک نئے منصنف کا ناول ان کی جان بچانے کا باعث بنا۔
انگریزی ناول نگار آرنلڈ بینیٹ کی ڈائری میں درج ہے کہ انہوں نے سلوائن کو اپنے ناول کا کچھ حصہ سنایا تھا، جس پر ڈرامہ بنانا چاہ رہے تھے جبکہ سلوائن نے اس پر بات چیت کے لیے ان کو 19 اپریل کا وقت دیا جبکہ اس سے قبل وہ ایچ بی ہیرس کے ساتھ ٹائٹینک پر سفر کا منصوبہ بنا چکے تھے تاہم انہوں نے وہ منسوخ کیا ایچ بی ہیرس نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ ٹائٹینک پر سفر کیا تھا اور ڈوب گئے تھے۔

ڈیوڈ بلیئر کی ڈیوٹی ٹائٹینک میں تھی مگر اس روز انہیں دوسرے جہاز پر بھیج دیا گیا تھا (فوٹو: لسٹ ورس) 

کروز نیسٹ
ڈیوڈ بلیئر ٹائٹینک میں سیکنڈ آفیسر کے طور مقرر تھے اور انہوں نے پہلے سفر کے دوران جانا بھی تھا تاہم آخری وقت میں ان کی جگہ چیف آفیسر ہنری وائلڈ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا جو کمپنی کے دوسرے جہاز اولمپک پر تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آنے والے دنوں میں ان کو کپتانی سونپی جا سکتی تھی، ڈیوڈ بلیئر کو اولمپک بھیج دیا گیا جو ان کے حق میں بہتر اور ہنری وائلڈ کے لیے برا ثابت ہوا۔
ڈیوڈ بلیئر کی ڈیوٹی ’کروز نیسٹ‘ میں تھی، جو جہاز کے اوپر بنے اس کیبن کو کہتے ہیں جہاں بیٹھ کر دور بین کے ذریعے کسی بھی خطرے کی نشاندہی کی جاتی ہے اور اس وقت اس ڈیوٹی پر ہنری وائلڈ تھے۔
بے چارہ ملازم
الفریڈ گوائنے وینڈربلٹ کا تعلق مشہور امیر خاندان وینڈربلٹ سے تھا۔ وہ سپورٹس مین بھی تھے۔ اپریل 1912 میں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ انگلینڈ میں تھے اور بکنگ کروا چکے تھے تاہم ایک روز قبل ہی انہوں نے ٹائٹینک پر سفر کا ارادہ بدل دیا۔
ان کو خاندان میں سے کسی نے بتایا کہ جو بھی ہو وہ ایک نیا جہاز ہے اور پہلے سفر میں مسائل ہو سکتے ہیں، تاہم چونکہ بکنگ ہو چکی تھی اس لیے اپنے ملازم فریڈرک کو سامان کے ساتھ بھجوا دیا تھا جو کہ حادثے میں ڈوب گیا۔

مشہور تھیٹر ڈائریکٹر ایڈگر سلوائن ایک ناول کے مصنف سے ملاقات کی وجہ سے سوار نہ ہو پائے (فوٹو: لسٹ ورس)

بدقسمت سویٹ  
مشہور صنعت کار جے پی مورگن، کلے فریک اور جے ہوریس ہارڈنگ ٹائٹینک پر سوار ہونے کے قریب ہی تھے، اور انہوں نے ایک بڑی لگژری سویٹ بک کروائی، تاہم کلے فریک کی اہلیہ کو ایک حادثے میں ٹخنے پر چوٹ لگ گئی۔ اس لیے انہوں نے جانے سے معذرت کی۔ جس کے بعد سویٹ جے پی مورگن کو منتقل ہوئی، تاہم انہوں نے بھی ارادہ بدل دیا جس پر ہوریس ہارڈنگ بھی پیچھے ہٹ گئے، اس کے بعد وہ بدقسمت سویٹ وائٹ سٹار کے لائن چیئرمین جے بروس کو دے دی گئی تھی۔
فرسٹ کلاس ٹکٹ
جے سٹیورٹ ہولڈن سینٹ پال چرچ لندن میں پادری تھے اور انہوں نے امریکہ میں ہونے والے ایک کنونشن میں شرکت کے لیے جانا تھا تاہم روانگی سے ایک روز ان کی اہلیہ اچانک بیمار ہو گئیں، جس پر انہوں نے ٹکٹ واپس کر دیا جو آج بھی اپنے پیلے لفافے کے ساتھ لیورپول کے عجائب گھر میں موجود ہے، جس کے اوپر لکھا ہے ’فرسٹ کلاس مسافر کے لیے‘   

ٹائٹینک 1912  میں اپنے پہلے سفر کے دوران ڈوب گیا تھا (فوٹو: بریٹینکا ڈاٹ کام) 

ٹکٹ لیا، سوار نہ ہوئے
ملٹن ہرشے ایک بزنس مین تھے اور ایک بڑی کمپنی کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انسان دوست سرگرمیوں کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔
انہوں نے تین سو ڈالر کے عوض ٹائٹینک میں فرسٹ کلاس ٹکٹ خریدا تھا، تاہم اس کے باوجود بھی جہاز میں سوار نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ اس سے پہلے ایک اور جہاز سے جا چکے تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاز روانہ ہونے میں ابھی چند روز باقی تھے تاہم ایک بزنس ڈیل کی وجہ سے ان کو اپنا پلان بدلنا پڑ گیا تھا۔

مفت سفر کی پیشکش

ریڈیو کے موجد گگلیمو مارکونی بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے ٹائٹینک میں سفر کرنا تھا۔ ان کو جہاز کی طرف فری سفر کی پیشکش کی گئی تھی، تاہم مصروفیت کی وجہ سے تین روز قبل ہی آئرلینڈ سے ایک اور جہاز کے ذریعے امریکہ روانہ ہو گئے تھے اور ان کے سٹینوگرافرز نے ٹائٹینک پر سفر کیا۔ ٹائٹینک پر جتنے مسافروں کی جان بچائی گئی وہ مارکونی کی ایجاد ریڈیو کی بدولت ہی ممکن ہو پائی تھی۔

ٹائٹینک کا ملبہ آج بھی سمندر کی تہہ میں موجود ہے (فوٹو: اٹلانٹک پروڈکشنز)

ٹائٹینک کا ملبہ
اس جہاز کا پورا نام ایم ایس ایس ٹائٹینک تھا، جو 15 اپریل 1912 کو انگلینڈ سے امریکہ کے لیے روانہ ہوا تھا، جس پر 22 سو سے زائد لوگ سوار تھے۔
یہ بدقسمت جہاز بحر اوقیانوس میں آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً 15 سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس جہاز کا ملبہ اب بھی سمندر کی تہہ میں موجود ہے۔

شیئر: