Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بیٹیوں کو جہیز میں سانپ نہیں دے سکا‘

مصری جوگی اپنی آٹھ میں سے صرف دو بیٹیوں کو ہی جہیز میں سانپ دے سکے۔
شام تقریباً پانچ بجے کا وقت ہے، 65 سالہ سردار مصری جوگی سندھ کے تاریخی شہر عمر کوٹ کی ’جوگی کالونی‘ میں اپنے جھگی نما گھر کے آنگن میں بیٹھے ہیں۔
انہوں نے زرد رنگ کا جبہ زیب تن کیا ہوا ہے، اور ساتھ میں اسی رنگ کی پگڑی بھی پہنی ہوئی ہے۔ گلے میں سانپ کی ہڈیوں سے بنی مالا بھی لٹکائی ہوئی ہے۔ یہ برصغیر، بالخصوص سندھ کے سپیروں کا روایتی لباس ہے۔
مصری ماضی کی باتیں کر رہے ہیں۔ کئی سال پرانے ماضی کی۔ وہ یاد کر رہے ہیں اپنی جوانی اور بچپن، اور اپنے والدین کی جوانی کو۔ جب سپیروں کی ایک ثقافت ہوتی تھی اور سپیروں کے بچے بھی سپیرا بننے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
ان کی گفتگو میں مستقبل کا بھی ذکر ہے، لیکن یہ ذکر تشویشناک اور فکر انگیز ہے۔ ان کی آنکھوں میں مایوسی ہے اور آواز بھر آئی ہے۔
’سانپ، مرلی (بین) اور سپیرے کا صدیوں سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے مگر اب یہ ساتھ چھوٹ رہا ہے۔‘
مصری کے ساتھ ان کا بیٹا بیٹھا ہوا ہے۔ انیس سالہ مور جوگی۔ ان کے ہاتھ میں سانپ ہے، کالے رنگ کا سانپ۔ جس کا وزن لگ بھگ پانچ کلو ہے اور لمبائی تقریباً ڈھائی میٹر۔ اس کا پھن چوڑا ہے، اور وہ بار بار اپنی پتلی زبان باہر نکال رہا ہے۔
مور نے یہ سانپ چار مہینے پہلے سیہون کے قریب کھیرتھر پہاڑ سے پکڑا تھا، یہ پہاڑ عمرکوٹ سے 300 کلومیٹر دور ہے۔
 اس کے ساتھ ہی پٹاری میں ایک اور سانپ پڑا آرام کر رہا ہے، جو پہلے سے مور کے پاس ہے۔ اب مور کے پاس دو سانپ ہو گئے ہیں۔ وہ ان دونوں کو الگ الگ پٹاریوں میں رکھتے ہیں۔

کچھ سپیروں نے سانپوں کو چھوڑ کر ساز پکڑ لیے ہیں اور سازینے بن گئے ہیں۔

مور کو اپنے سانپوں سے پیار ہے اور پیشے سے بھی۔ اس کے باوجود مصری جوگی اداس ہیں۔
مصری جوگی، جو سندھ میں سپیروں کے ایک بڑے گرناری قبیلے کے سردار ہیں، اپنے بیٹے نہیں، بلکہ جوگی برادری کے متعلق سوچتے ہوئے اداس ہیں۔ 
’سانپ پکڑنا اور پھر اس سے کرتب کروانا صدیوں سے ہمارا فن اور پیشہ بھی رہا ہے۔  لیکن اب نئی نسل اپنے اس آبائی فن کوتیزی سے چھوڑ رہی ہے۔ مجھے اپنی برادری کے مستقبل کی فکر ہے۔‘ مصری نے اپنی پریشانی کا سبب بتایا۔
مصری اپنے دور کے ایک نامور سپیرا رہے ہیں۔ انہیں اپنے فن میں مہارت اور نام کمانے کی وجہ سے 2013 میں صدر آصف ذرداری کی جانب سے تمغہ امتیاز بھی دیا گیا۔
انہوں نے پاکستان کے چپے چپے میں سانپوں کے کرتب دکھائے۔ اور پھر بیرون ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے گئے۔ انہوں نے جرمنی، جاپان اور لندن میں شوز کیے۔ ان کے فن کو سراہنے کے لیے انہیں کئی اسناد سے نوازا گیا۔
ان اسناد کو انہوں نے اپنے گھر میں سجا رکھا ہے۔
لیکن یہ اسناد اور یاد ماضی اب مصری کے کڑھنے کا باعث ہے۔ انہیں اپنی برادری میں ایسا کوئی نظر نہیں آ رہا جو آنے والے وقتوں میں یہ نام کمائے۔
اس کی بنیادی وجہ وہ معاشی مشکلات کو ٹھہراتے ہیں۔ کیونکہ سپیروں کو اب ان کے فن کے بدلے کوئی خاص انعام نہیں دیا جاتا۔

برصغیر، بالخصوص سندھ کے سپیروں کا روایتی لباس زرد رنگ کا ہے۔

پرانے سپیروں کی نوجوان اولادیں اس فن میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے پیشوں کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔
وہ اب سانپ پکڑنے کی بجائے مستریوں اور تعمیراتی کاموں یا پھر کھیتوں میں مزدوری اور چھوٹے موٹے ٹھیلے چلانے کے کام کر رہے ہیں۔
کچھ نے سانپوں کو چھوڑ کر ساز پکڑ لیے ہیں اور سازینے بن گئے ہیں۔ وہ اب سانپ کے سامنے بین کی بجائے لوگوں کے سامنے ہارمونیم اور ڈھولک بجا تے ہیں۔
کچھ جوگیوں کے بچے تعلیم کی طرف بھی راغب ہیں۔ وہ اب سانپ کو پکڑنے والے منتر کی جگہ الف، ب، پ یا A,B,C  پڑھ رہے ہیں۔
’سانپوں کو پکڑنا اور ان کے کرتب دکھانا دراصل ایک ہنر ہے، لیکن اس کے بدلے ہمیں باعزت معاوضہ ملنے کے بجائے بھیک ملتی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اب نئی نسل سانپ پکڑنے اور کرتب دکھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔‘
’ان میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ حقارت اور معاشرے میں نچلے طبقے کا شہری ہونے کا احساس برداشت کرسکیں۔‘
مصری کے خیال میں حکومت نے سپیروں اور اس فن کو بچانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

پرانے سپیروں کی نوجوان اولادیں اس فن میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے پیشوں کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔

مصری کی زندگی میں حکومت کی طرف سے ان کی برادری کی بہبود کے لیے واحد کام سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی جانب سے 1970 میں جوگی کالونی کے لیے زمین الاٹ کروانا تھا۔ 
اس کے علاوہ مصری کی اپنی جوگی کالونی ہے، جو انہی کے نام کی مناسبت سے ’مصری جوگی کالونی‘ کہلاتی ہے۔
 یہ پاکستان میں سپیروں کی سب سے بڑی بستی تصور کی جاتی ہے۔ یہاں جوگیوں کے تقریباً دو ہزار گھرانے جھگیوں میں آباد ہیں۔
مصری کے مطابق صرف ضلع عمرکوٹ میں 35000 کے قریب جوگی ہیں جبکہ اس کے علاوہ صوبہ سندھ کے مختلف مقامات پر تقریباً ڈھائی لاکھ تک سپیرے آباد ہیں۔ پورے ملک میں ان کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔
سندھ کے جوگی بنیادی طور پر صحرائے تھر سے تعلق رکھتے ہیں، یہ یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ بعد میں کچھ نے رزق کی تلاش میں شہروں کی طرف رخ کیا۔
جوگیوں کے کئی قبائل ہیں جن میں گرناری، سامی، تنیو اور کھاتھی کا شمار بڑے قبائل میں ہوتا ہے۔

مصری جوگی نے جرمنی، جاپان اور لندن میں شوز کیے اور انہیں کئی اسناد سے نوازا گیا۔

ان کا لباس آج بھی صحرائے تھر سے منسلک ہے۔ جہاں مرد نارنجی یا زرد رنگ کی پگڑی اور جبہ پہنتے ہیں۔ ساتھ میں گلے میں ڈالنے والے سانپ کی ہڈیوں یا پتھروں سے پروئے گئے ہار بھی پہنتے ہیں۔ جبکہ خواتیں گھاگھرا اور چولی زیب تن کرتی ہیں۔
جوگیوں کی زبان بھی تھری مارواڑی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سپیروں کا بنیادی مسکن قدیم مصر تھا جہاں سے سپیرے اور ان کا فن دنیا کے دیگر علاقوں میں پہنچا۔
ایشیا میں سپیرے پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں آج بھی آباد ہیں۔
پاکستان میں جوگی روایتی طور پر خانہ بدوش قبیلہ ہے جو پیٹ پالنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ ٹاٹ کی جھگیوں میں رہتے ہوئے موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہیں۔
لیکن اب کچھ گھرانے مستقل طور پر ایک ٹھکانہ بنا کر بھی رہنے لگے ہیں۔ مصری کے نزدیک یہ ان علامتوں میں سے ایک ہے جو سپیروں کو ان کے بنیادی فن سے دور کرکے شہری زندگی کے قریب لا رہی ہے۔  تاہم ان کا بیٹا مور باپ کی پریشانی سمجھتا ہے۔ وہ اپنے والد کا پیشہ نہیں چھوڑے گا۔

اسناد اور یاد ماضی اب مصری کے کڑھنے کا باعث ہے۔ انہیں اپنی برادری میں ایسا کوئی نظر نہیں آ رہا جو آنے والے وقتوں میں ایسا نام کمائے۔

وہ اپنے باپ سے سیکھے گئے فن کی خوب ترویج کر رہا ہے، اور اس نے اپنا رزق، روٹی اور اپنی زندگی کی سانسیں سانپوں سے منسوب کر دی ہیں۔
وہ ساری زندگی سپیرا رہنے کے بارے میں پرعزم ہے۔ ’یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے جس کو ہمارے آباؤ اجداد اپناتے آ رہے ہیں ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔‘
آج بھی مور کام سے واپسی پر اپنے سانپوں کے لیے بہترین خوراک لایا ہے۔ 
دو انڈے، ایک پاؤ گوشت اور ایک پاؤ دودھ ۔ انہوں نے سانپ کے منہ کو پکڑ کر کھولا اور انڈہ توڑ کر اس میں انڈیل دیا، پھر دودھ، اور پھر گوشت کھلایا۔
’ایک سانپ کی روزانہ خوراک دو انڈے، گوشت، اور دودھ ہے۔ آج کام اچھا ہوا ہے تو اس کی قسمت میں یہ ہے، ورنہ اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی تھی۔‘
پھر مون مسکرائے اور کہا ’سانپ کی خوراک کا دار و مدار سپیرے کی جیب پر ہوتا ہے۔‘
سپیروں کی کئی روایات اور حکایتیں بھی ہیں۔ ان میں سے ایک کے مطابق انڈیا کے نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے گوگا پیر چوہان کو سانپوں کا سردار مانا جاتا ہے۔

ایشیا میں سپیرے پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں آج بھی آباد ہیں۔

کئی صدیاں پہلے سانپ جب اپنے سردار کی حاضری دینے آتے تو اپنا زہر گوگا پیر کے کٹورے میں ڈال دیتے تھے جسے گوگا پیر پی جاتے تھے۔
گوگا پیر سانپوں کی بنی ہوئی چارپائی پرغار میں سوتے تھے۔ جہاں گوگا پیر کی نظر پڑ سکتی تھی وہاں سانپ کے کاٹنے کا اثر بھی نہیں ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ جب گوگا پیر آرام کرنے غار میں آنے لگے تو پہلے سے گھات لگائے ایک لنڈی (چھوٹی بلا) نے ان کی گردن کے پیچھے ڈس لیا، کیونکہ گوگا پیر گردن کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
اسی کاٹنے کی وجہ سے گوگا پیر کی موت واقع ہوگئی تاہم انہوں نے مرنے سے پہلے اس بلا کو بدعا دی کہ تو جہاں بھی جائے گی تو لوگ تجھے چن چن کر ماریں گے۔
سانپ پکڑنا اور اسے اپنے قابو میں کرنا ایک خطرناک عمل ہے، تاہم ایک ماہر جوگی کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
جس علاقے میں سانپ ہوتا ہے سپیرے اسے سونگھ لیتے ہیں۔
مصری جوگی کے مطابق سپیرے سانپ کو پکڑتے وقت پیران پیر دستگیر کی قسم دیتے ہیں۔ ساتھ میں دس دن سے لے کر ایک سال کے وقت کی سانپ کو زبان دی جاتی ہے کہ مقررہ وقت کے دوران سانپ کو آزاد کر دیا جائے گا۔
اس معاہدے کے بعد سانپ جوگیوں کو نہیں کاٹتا۔ 
مصری کے مطابق وعدے کی خلاف ورزی کرنے پر سانپ نقصان پہنچائے گا جس کی ذمہ داری متعلقہ جوگی پرعائد ہوتی ہے۔

جدید تحقیقات کے مطابق سانپ کے کان نہ ہونے کے باعث ان میں سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔

گئے وقتوں میں سپیرے سانپ کے کاٹے کا علاج بھی کرتے تھے۔ سانپ کے کاٹنے کی جگہ سے سپیرے سانپ کا زہر چوس لیتے تھے، بعد ازاں منتر پڑھے جاتے تھے جس سے مریض ٹھیک ہو جاتا تھا۔ مگر اب سانپ کے کاٹنے کا علاج ڈاکٹروں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔
نئے سیکھنے والے بچے جوگی کو یہ گر سیکھنے کے لیے دس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس کی تربیت میں بین بجانا، سانپ پر پڑھ کر پھونکنا اور اس کو قابو کرنا شامل ہوتا ہے۔
مگر جدید تحقیقات کے مطابق سانپ کے کان نہ ہونے کے باعث ان میں سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ سپیرا دراصل سانپ کو ہپناٹائز کر دیتا ہے اور اپنی مرلی (بین) کی لہروں کی مدد سے سانپ کو قابو میں رکھتا ہے اور کرتب دکھواتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہنر جاننے والے بوڑھے جوگی کم ہوتے جارہے ہیں۔ اورنئی نسل کی دلچسپی معدوم۔ پاکستان میں سانپ پکڑنے اور اس کے کرتب دکھانے کی ممانعت نہیں ہے۔
سندھ وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ کے پراونشل کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے اردو نیوز کو بتایا کہ موجودہ قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو سانپوں کی پکڑ دھکڑ پر روشنی ڈال سکے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت ایک نئے قانون پر کام کر رہی ہے جس کے تحت سانپ سمیت دیگر چرند و پرند کو بغیر کسی محکمانہ اجازت کے اپنی تحویل میں رکھنے کے متعلق ضوابط بنائے جائیں گے۔
اینٹی وینم لیباریٹری سکرنڈ کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان بھر میں پائے جانے والے سانپوں کی اقسام 55 ہیں جن میں سے 13 زہریلے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں سات قسم کے زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں جوگی خانہ بدوش قبیلہ ہے جو پیٹ پالنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

ساون کا موسم سانپوں کے تولیدی عمل کا وقت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں پائے جانے والے سانپوں کی بیشتر قسمیں انڈے دیتی ہیں جبکہ چند اقسام بچے بھی دیتی ہیں۔
سانپوں کی سپیروں کے رسم و رواج میں بھی بہت اہمیت ہے۔ بیٹی کے بیاہے جانے پر میکے والے اسے جہیز میں سانپ دیتے ہیں تاکہ داماد کا روزگار چلتا رہے اور بیٹی سکھی رہے۔
لیکن اب سانپوں کی بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق درختوں کی بے دریغ کٹائی، فصلوں میں ٹریکٹر کے استعمال اور دیہی علاقوں میں پکی سڑکیں بچھایا جانا سانپوں کی نسل کشی کا سبب بن رہا ہے۔
سانپوں کی کمی اس قدر ہوگئی ہے کہ اب تو بعض اوقات جہیز کے لیے بھی سانپ نہیں ملتا۔
ایسے میں یا تو کسی سے سانپ ادھار مانگ کر ضرورت پوری کی جاتی ہے یا پھر مجبوری میں بغیر سانپ کے ہی بیٹی بیاہ دی جاتی ہے۔
مصری جوگی بھی اپنی آٹھ میں سے صرف دو بیٹیوں کو ہی جہیز میں سانپ دے سکے۔ ان کو اس کا بھی غم ہے۔
’سپیروں کا سردار تو ہوں لیکن اپنی بیٹیوں کو جہیزمیں بھی سانپ نہیں دے سکا۔‘ 

شیئر:

متعلقہ خبریں