Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرائیویسی کا مطلب کیا؟

ہماری زبان کچھ ایسی صاف نہیں۔ خدارا اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ ہمارا جب جی کرے مغلظات بکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ابھی بھی کچھ پرانی وضع داری باقی ہے کہ کبھی غصے میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔
کبھی مذاق میں بھی گالم گلوچ نہیں کی۔ زبان کی صفائی سے مراد یہ بھی کہ ہمیں کسی بھی زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں۔ مادری زبان اردو تھی، پدری زبان سرائیکی، سماجی زبان انگریزی۔۔۔ بس خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ ابھی بھی مختلف زبانوں میں سوچتے ہیں اور ترجمے کے چکر میں اپنے بال نوچے جاتے ہیں۔
ابھی کی مثال لیجیے۔ کالم لکھنا تھا۔ موضوع کئی دنوں سے ذہن میں سرسوں کے پھول کی طرح تازہ تھا۔ لیکن وہ کیا کیجیے کہ ترجمے نے ہمارا ہی تیل نکال دیا۔ چند ایک زباندان دوستوں سے پوچھا تو وہ بھی ہماری طرح کنفیوژ ہی نکلے۔ پس ثابت ہوا کہ اسے انگریزی میں ہی لکھ دیں گے۔ آفٹر آل، اردو لشکری زبان ہے۔
 پڑھنے والے سمجھ جائیں گے۔ کچھ لفظوں کا ترجمہ اس لیے بھی نہیں ہوتا کہ وہ اس زبان میں ہوتے ہی نہیں۔ اس ثقافت سے ہی میل نہیں کھاتے۔ یہ لفظ تھا ’پرائیویسی۔‘ 

جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دینا ہمارا استحقاق ہے (ان سپلیش)

ویسے تو اس کی ہماری زبان میں یوں بھی گنجائش نہیں بنتی کہ ہمارے ہاں پرائیویسی کا کوئی خاص عمل دخل ہی نہیں۔ ہمیں اس بات پر بہت مان ہے کہ ہم ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں انفرادی زندگی کا کوئی خاص تصور نہیں۔ چادر اور چار دیواری کا ذکر بھی صرف عورت کی ذات تک محدود ہے کہ وہ گھر کے اندر ہی رہے اور اپنے جسم کو ڈھک کر رکھے۔ اسی گھر میں اگر وہی عورت اپنی پرائیویسی چاہے تو اس پر کئی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ ہمارا تو سب کچھ سانجھا ہی ہوتا ہے۔ 
یہ سانجھ اس حد تک گہری ہے کہ ہر کسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے کے گھر کے تمام معاملات تک رسائی رکھے۔ پڑوس کی خالہ جان کے لیے بہت اہم ہے کہ برابر والوں کی چھوٹی بہو لڑ کر اپنے میکے سے واپس آئی یا نہیں۔ ان کی جوان لڑکی کل ایک لڑکے ساتھ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر آئی تھی جو اس نے ایک گلی پہلے ہی رکوا دیا تھا۔ ان کی منجھلی بہو کچھ دنوں سے ناشتے کے وقت اٹھ کر باورچی خانے نہیں آ رہی۔ لگتا ہے کہ اس کا پیر بھاری ہے۔
 حاجی صاحب آج کل ہر جمعے کو خضاب لگا رہے ہیں۔ گھر سے باہر بھی خوشبو لگا کر نکلتے ہیں۔ لگتا ہے کہ دو گلی چھوڑ کر رہنے والی جوان بیوہ سے نکاح پڑھوانے کے چکر میں ہیں۔ حاجن بی ان کے گھر سے نکلتے ہی دیو آنند کی فلم دیکھنے بیٹھ جاتی ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا کل رات کو چھت پر کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔ یقینا ماں باپ سے چوری چھپے کوئی گل کھلانے کو ہے۔ 
پڑوسن خالہ کونہ صرف سب خبر ہے بلکہ اپنی اس ذمہ داری کا احساس بھی ہے کہ یہ سب تک پہنچانا بھی ان ہی کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ آخر سب بیٹیاں، بہوئیں، باپ، بھائی، بھتیجے، بھتیجیاں سانجھے ہوتے ہیں۔ ان کی عزت سب کی عزت ہے۔ ان کا مقصد تو عزتوں کی حفاظت کرنا ہے۔ محلے کا ماحول پاک صاف رکھنا ہے۔
ہمارے اپنے معاملات جو بھی ہوں لیکن دوسرے کے معاملات کی خبر رکھنا اور انہیں جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دینا ہمارا استحقاق ہے۔ اب پڑوسن خالہ بوڑھی ہو گئی ہیں۔ لیکن ان کی جگہ اور بہت سی چیزوں نے لے لی ہے جہاں ان کے نام لیوا ان میراث سنبھالے بیٹھے ہیں۔
 سوشل میڈیا ہے جہاں ہر کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اپنے گھر میں کون سی آگ لگی ہے۔ لیکن اس بات سے ضرور مطلب ہے کہ فلاں کی بیٹی نے لاہور جا کر دوپٹہ سر سے اتار دیا ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے ہیں جن کا بظاہر مقصد تو عوام کا تحفظ اور جرائم کی روک تھام یقینی بنانا ہے لیکن اسی سی سی ٹی وی کیمرے پر نہ صرف لوگوں کی ویڈیو ریکارڈ کی جاتی ہے بلکہ ہر طرف پھیلائی بھی جاتی ہے کہ معاشرے کا ’اخلاق‘ محفوظ رہے۔ یقینا ہماری جان سے زیادہ ہمارے افکار اور اخلاق کی حفاظت  مقدم ہے۔ 
پڑوسن خالہ بھلے رعشہ کی مریض ہوگئی ہوں۔ ان کی آنکھوں میں بھلے موتیا اتر آیا ہو لیکن ان کی تربیت اور ڈی این اے ابھی بھی جوان ہے۔ ان کے ورثا آج بھی ان کی اثاث کا علم بلند کیے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔ 
ہمیں تو کبھی یہ بات سمجھ ہی نہ آسکی کہ آخر کسی کو اس بات سے کیا سروکار ہے کہ کوئی عورت شادی شدہ ہے یا طلاق یافتہ۔ اس بات سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے کہ کس کے گھر میں بہو کا پاؤں بھاری ہوا یا نہیں۔ کسی کی بیٹی دوپٹہ گلے میں رکھتی ہے یا بستے میں اس بات میں کسی کو کیوں دلچسپی ہے۔ کرنے والوں نے اسے اپنائیت اور معاشرتی روایات کے تحفظ کا نام لیا جو ہماری سمجھ سے ہمیشہ باہر رہا۔ 

 سی سی ٹی وی کیمرے تب کہاں ہوتے ہیں جب خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہوتا ہے (فوٹو ان سلپیش)

ہمیں یہ بات بھی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہی اپنائیت اس وقت کیوں نہیں جاگتی جب کسی گھر میں بیوی کو صبح شام پیٹا جاتا ہے۔ اس وقت یہ معاشرتی اقدار کہاں جاتی ہیں جب غربت کے ہاتھوں اپنے ہی برابر کے گھر والے بچوں کو بھوکا آیا دیتے ہیں۔ کسی گھر میں لاکھوں کی عید قربان منا لی جاتی ہے تو قریبی رشتے دار ہی صرف اپنی تمناؤں اور خوشیوں کی قربانی ہی دے پاتے ہیں۔
 کسی کے ہاں کھانے کی میز ختم ہو جاتی ہے لیکن کھانوں کی ڈشیں ختم نہیں ہوتیں تو کسی کے گھر دو وقت کی روٹی کے لالے ہیں۔ کسی کے ڈھیر سارے بچے مہنگے سکولوں میں جاتے ہیں تو کوئی اپنی لائق قابل بیٹی کو اسکول کی کتابوں کا خرچہ پورا نہ کر پانے کے باعث اس کا نام کٹوا لیتا ہے۔ 
پتہ نہیں پڑوسن خالہ تب کہاں ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ سی سی ٹی وی کیمرے تب کہاں ہوتے ہیں جب شاپنگ مالوں میں خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہوتا ہے، جب جیبیں کاٹی جا رہی ہوتی ہیں، جب کوئی غریب بچی حسرت سے شیشے کی دکانوں میں پڑی گڑیا کو تکتی ہے۔ شاید ناانصافی سے معاشرے میں بگاڑ نہیں آتا۔ 
بائی دا وے، پرائیویسی کا ترجمہ ملے تو بتائیے گا۔ ہم نے تو نہ کبھی اپنے ہاں نہ کبھی سنی نہ دیکھی۔ آپ کو ملے تو چپکے سے بتا دیجیے گا۔ آپ کا نام صیغہ راز میں رکھنے کا وعدہ ہے۔ اجر دینے والی خدا کی ذات ہے۔
 

شیئر: