پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی میں اتوار کے روز مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگا کر ہندوؤں کے مندر اور ایک پرائیویٹ سکول پر حملہ کیا اور وہاں توڑ پھوڑ بھی کی۔
پولیس کے مطابق گھوٹکی شہر کے پرائیویٹ سکول کے ایک ہندو پرنسپل پر طالب علم کی جانب سے توہین رسالت کا الزام لگانے کے بعد اتوار کی صبح لوگوں کا ایک ہجوم سکول اور قریبی مندر پر حملہ آور ہوا۔
ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے واقعے کی تفصیلات بتائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم نے سکول کے پرنسپل پر الزام لگایا کہ انہوں نے کلاس میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نامناسب جملے کہے اور توہین کے مرتکب ہوئے۔
کیا گھوٹکی میں مندر کو جلانے والوں پر بھی توھین مذہب کا مقدمہ ہوگا؟ یا یہ قانون صرف مذہبی اقلیتوں پر ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ pic.twitter.com/hHRXLIyksa
— Mukesh Meghwar (@Mukesh_Meghwar) September 15, 2019
ان کے مطابق ٹیچر کی عمر 57 سال کے قریب ہے اور سکول ان کی ملکیت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتعل ہجوم نے صبح سکول اور قریبی مندر پر حملہ کیا تاہم پولیس نے موقعے پر پہنچ کر صورتحال پر قابو پا لیا۔
انہوں نے تصدیق کی کہ پولیس نے سکول کے پرنسپل کو تحویل میں لے لیا ہے اور اس معاملے کی تفتیش ہوگی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس نے سکول اور مندر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس صورتحال کو کنٹرول کرنے میں مصروف تھی۔ لوگ اشتعال میں تھے اس لیے فوری ایکشن سے الٹا نقصان ہو سکتا تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب قانون حرکت میں آئے گا اور سکول اور مندر پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔
Aren't we Pakistani?
We #Pakistani #Hindus are only 2% of the total population. I just want to know what danger do we pose to 98% population. Just visit my timeline & see how we observed Muhrram a few days ago, but yet we suffer incidents like #Ghotki.
— Kapil Dev (@KDSindhi) September 15, 2019
دوسری طرف ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ متاثرہ علاقے کی ہندو کمیونٹی انتہائی خوفزدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے حملہ آورں کو روکنے کے لیے کوئی بروقت کارروائی نہیں کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حملے کے بعد بھی کسی کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی مختلف صارفین اس حوالے سے تصاویر اور دیگر تفصیلات شیئر کر رہے ہیں۔
مکیش میگھوار نامی صارف نے لکھا ’گھوٹکی پھر جل اٹھا، گھوٹکی میں ایک نجی سندھ پبلک اسکول کے پرنسپل ۔۔۔۔۔ جو کے غیر مسلم ہیں ان پر ان کے سٹوڈینٹ نے الزام لگایا ہے کہ پرنسپل ۔۔۔ نے نبی کریم کی شان میں گستاخی کی ہے ۔جس کے بعد اسکول ، مندر اور گھروں پر لوگوں کا حملا اور پورے شہر میں خوف کا سماں چھایا ہوا ہے ‘
ایک دوسرے ٹویٹ میں مکیش نے مشتعل ہجوم کی جانب سے مندر پر حملے کی مبینہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا گھوٹکی میں مندر کو جلانے والوں پر بھی توہین مذہب کا مقدمہ ہوگا؟ یا یہ قانون صرف مذہبی اقلیتوں پر ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
عدالت عظمیٰ: آسیہ مسیح کی بریت کیخلاف نظر ثانی کی اپیل مستردNode ID: 383826