لاہور میں ہمارا ایک حلقہ فکر ہے، تھنکرز سرکل کہہ لیں یا فورم، ہم اسے تھنک ٹینک بھی کہہ دیتے ہیں۔ سی این اے یعنی کونسل آف نیشنل افیئرز۔ لاہور کے کئی سینیئر صحافی، دانشور، یونیورسٹی پروفیسر، وکلا وغیرہ اس کے ممبرز ہیں۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ پچھلے 26، 27 برس سے یہ ہر جمعہ کی شام اپنا اجلاس منعقد کرتا ہے اور کرنٹ افیئرز پر دو ڈھائی گھنٹے گفتگو رہتی ہے، کبھی کبھار کوئی مہمان بھی مدعو کیا جاتا ہے، سیاستدان، دانشور، ریٹائر جج وغیرہ یا کوئی اعلٰی پروفیشنل۔
دو دن قبل جمعہ کی شام پورا سیشن بلوچستان پر مختص کیا گیا۔ صحافی دوستوں کے علاوہ کئی ایسے لوگوں نے بھی اپنا تجزیہ اور معلومات شیئر کیں جو بلوچستان رہ چکے یا وہاں سروس کی۔ مہمان سپیکرز میں سے ایک سابق پولیس افسر بھی تھے۔ وہ سندھ میں بھی خاصا عرصہ رہے جبکہ انہوں نے سات آٹھ برس بلوچستان پولیس میں بھی فرائض سرانجام دیے۔ وہ چھ سات برس تک کوئٹہ کے سی سی پی او رہے بلکہ آر پی او بھی رہے اور ان کے زیرنگرانی کئی اضلاع آتے تھے۔
وہ ڈی آئی جی بنے اور پھر ایڈیشنل آئی جی پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ان کا دور بھی زیادہ پرانا نہیں تھا، 2013 کے بعد کوئٹہ میں تعینات ہوئے۔ پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ صاحب نے بھی اپنے تجربات، مشاہدات شیئر کیے اور صرف تجزیہ نہیں کیا بلکہ حل بھی تجویز کیے۔ انہوں نے احتیاط اور سلیقے سے بات کی اور بعض مشکل سوالات کے جواب دیے مگر ریڈ لائنز کا خیال رکھتے ہوئے اور مثبت اصلاح طلب انداز میں بات کہی۔
مزید پڑھیں
-
زندگی کے یہ رنگ بھی دیکھنے ہی پڑیں گے، عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 882768
-
آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 883698
مجھے بلوچستان کے ایشو سے گہری دلچسپی رہی ہے، اس پر بہت کچھ لکھتا رہا ہوں۔ بلوچستان میں دوست ہیں، صحافی حلقوں سے بھی رابطے میں رہا ہوں۔ دو تین بار وہاں گیا، زیادہ تو نہیں بس کوئٹہ، زیارت، مستونگ، قلات وغیرہ ہی جانا ہوا، مگر عام لوگوں سے ملنے کے بعد کئی باتیں اچھی طرح سمجھ آ گئیں۔ سی این اے کے اس سیشن میں بہت تفصیل سے باتیں ہوئیں۔ وہاں سروس کرنے والے احباب کی باتیں سن کر چار پانچ پوائنٹس سمجھ آ گئے، وہ قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہ رہا ہوں۔
مسئلہ اب کلیشے کی گفتگو سے حل نہیں ہوگا
بلوچستان کے مسائل، ایشوز اس قدر پیچیدہ اور گھمبیر ہوچکے ہیں کہ وہ کلیشے کی گفتگو، گھسے پٹے، روایتی فارمولوں سے حل نہیں ہو سکتے۔ لغت میں کلیشے کی باقاعدہ تعریف دیکھی جائے تو یہ جواب ملتا ہے:
كليشے انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے جس سے مراد ایسے جملے، خیال یا فنی عناصر ہیں جو بکثرت استعمال ہونے کی بنا پر اپنے اصل معنی سے دور ہو جاتے ہیں یا کثرت استعمال سے فرسودہ سمجھے جانے لگتے ہیں اور اپنی کشش کھو بیٹھتے ہیں۔

اس لیے بلوچستان کے مسائل اور بحران کا حل اگر ڈھونڈنا ہے تو روایتی، پٹی ہوئی باتیں نہیں چلیں گی۔ سوچ سمجھ کر، مشاورت کے بعد حقیقی حل نکالا جائے، زمینی تقاضوں کے عین مطابق۔ ’بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے صرف ایک ایس ایچ او کی ضرورت ہے‘ جیسے کمزور جملوں سے کام نہیں چل سکتا۔
آپریشن فوری حل ہوسکتا، مگر یہ مستقل اور دیرپا نہیں
جو لوگ بلوچستان میں کام کر چکے ہیں، جن کا مزاحمت کاروں سے واسطہ پڑا ہے، جو اس ایشو کو گہرائی سے جانتے ہیں، ان کے مطابق ایک اور آپریشن مستقل نہیں صرف عارضی حل ہے۔ عسکریت پسندی کو ہینڈل کرنے والے ماہرین کے مطابق اگر بلوچستان میں طریقے سے، اچھی انٹیلی جنس اطلاعات حاصل کرکے ٹو دا پوائنٹ آپریشن کیا گیا تو اس کے قوی امکانات ہیں کہ بی ایل اے جس قدر اس وقت طاقتور اور غالب نظر آ رہی ہے، اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ چیزیں بڑی حد تک ٹھیک ہوجائیں گی، مگر یہ کوئی دیرپا، مستقل حل نہیں۔ اس لیے کہ جیسے ہی آپریشن ہو گا، شدت میں سے بہت سے لوگ انڈرگراؤنڈ چلے جائیں گے یا اِدھر اُدھر بھاگ جائیں گے۔
ادھر اُدھر سے مراد بلوچستان کی سرحد سے ملحق دو ہمسایہ ممالک ہیں۔ اس لیے کہ بہت سے قبائل ایسے ہیں کہ ان کے کچھ لوگ پاکستان میں رہتے ہیں، کچھ افغانستان میں۔ وہاں سیستان صوبہ میں ایرانی بلوچ رہتے ہیں اور پاکستانی بلوچ بھی وہاں آتے جاتے رہتے ہیں، پناہ بھی لے سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اس میں حکومتی مدد شامل ہو، کیونکہ قبائلی سطح پر لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، بغیر پاسپورٹ ویزے کے بھی۔ جیسے ہی پریشر کم ہوگا، یہ لوگ پھر سے واپس آ کر ایکٹیو ہو جائیں گے۔
عسکریت پسندوں کو غیر ملکی اور لوکل دونوں فنڈنگ میسر ہیں
یہ بھی ایک مغالطہ اور اوور سمپلیفکیشن ہے کہ دیکھیں جی عسکریت پسند تنطیموں کو باہر سے پیسہ اور فنڈنگ ہوتی ہے، وہ اگر روک دی جائے تو ان کی کارروائیاں رک جائیں گی۔ نہیں بات اتنی سادہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عسکریت پسندوں کو غیرملکی فنڈنگ ملتی ہو۔ یہ قرین قیاس اور منطقی بھی ہے۔
عسکریت پسندوں کی فنڈنگ کے مگر اپنے ذرائع ہیں اور وہاں سے بہت زیادہ انکم جنریٹ ہو جاتی ہے۔ وہاں کام کرنے والے تجربہ کار پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ کے مطابق عسکریت پسند تنظیمیں بہت زیادہ فنڈ مختلف قسم کے بھتوں وغیرہ سے اکھٹا کرتی ہیں۔ اسی طرح جو لوگ مختلف قسم کے کاروبار کرتے، حتیٰ کہ اپنی زمینوں سے بھی بڑی رقم حاصل کرتے ہیں، انہیں بھی ایک خاص تناسب سے رقم کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے، جبکہ ایرانی پیٹرول اور دیگر ایرانی مال کی سمگلنگ کرنے والے بھی اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔
اغوا برائے تاوان کا دھندا اپنی جگہ پر ہے۔ بھتے کی ادائیگی نہ دینے والے کو اٹھا لیا جاتا ہے۔اس لیے اس منی ٹریل اور رقوم جمع کرنے کی سپلائی لائن کو توڑنا بہت اہم اور ضروری ہے لیکن ایسا کرنا ہرگز آسان نہیں۔
