امریکہ اور ایران کے درمیان پہلے سے ہی کشیدگی چل رہی ہے
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حالیہ حملہ کس نے کیا، کہاں سے ہوا اور اس میں کونسے ہتھیار استعمال کیے گئے؟ ان سوالات کے تسلی بخش جوابات دینا شاید قبل از وقت ہوگا۔ سعودی ادارے ابھی تفتیش کے مراحل میں ہیں اور یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ تحقیق میں عالمی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
امریکہ اور دیگر ذرائع حملوں میں ایران کو براہ راست ملوث کر رہے ہیں۔ امریکہ اور ایران کے درمیان پہلے سے ہی کشیدگی چل رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا تیل تنصیبات پر حملے کے بعد اب امریکہ ایران پر حملہ کر سکتا ہے؟
سکائی نیوز کے مطابق تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نئے حملے نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مشتعل کرنے کا بڑا سامان فراہم کر دیا ہے۔ ایران امریکہ کی سخت پابندیوں کے باعث داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر حواس باختہ ہو گیا ہے۔
فوجی تجزیہ نگار امین احمد نے اے بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس مرتبہ جوابی کارروائی کا عندیہ دے چکا ہے لیکن جواب کس شکل میں دے گا، اس پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔
تجزیہ نگار نے بتایا ہے کہ معاشی اعتبار سے امریکہ نے ایران کے مذہبی پیشوا، ایرانی نظام کی اہم شخصیتوں اور پاسداران انقلاب پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ سائبر جنگ کے ذریعے میزائل داغنے میں استعمال کیےجانے والے ایرانی کمپیوٹر سسٹم کو بھی غیر موثر بنانے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے یہ کہا ہے کہ جون میں امریکہ نے فوجی حملے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اس مرتبہ حملے کے لیے تیار ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر طارق فہمی نے کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کو امریکہ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں تمام جہتوں میں ہاتھ پیر مارنے ہوں گے۔ امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نے ایران کو اب تک کھل کر کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے عہدیدار اسٹف گینرڈ نے کہا ہے کہ حوثی ماضی میں بھی تیل پائپ لائنوں پر حملہ کر چکے ہیں۔ اس مرتبہ تیل تنصیبات پر جو حملہ کیا گیا ہے ان کی اصلاح و مرمت مشکل ہو گی اور انہیں معمول کے مطابق کام کرنے میں وقت لگے گا۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پے در پے ٹویٹ کرکے سعودی عرب کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکی حکومت کو پتا ہے سعودی تیل تنصیبات پر حملے میں کس کا ہاتھ ہے تاہم امریکی حکومت کسی بھی اقدام سے قبل سعودیوں سے ان کی تحقیقات کے نتائج سننے کی منتظر ہے۔
سکائی نیوز کے مطابق ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’ہم حقائق کی بنیاد پر ایکشن کے لیے تیار ہیں تاہم سعودی عرب سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ ان کے خیال میں حملے کا ذمہ دار کون ہے اور کن شرائط پر ہم حرکت میں آئیں گے۔‘
ٹرمپ نے پہلی بار سعودی آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے امریکی فوجی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں