Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متاثرین کی درختوں تلے گزرتی راتیں

حکام کے مطابق متاثرین کو خاندان کے حساب سے امداد دی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں آنے والے زلزے کو چار روز ہو چکے ہیں۔ زلزلے کے بعد اگرچہ انتظامیہ، این ڈی ایم اے، فوج اور دیگر اداروں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئی تھیں تاہم متاثرین ابھی بھی امداد اور خیمے نہ ملنے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
منگل کو آنے والے زلزلے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا ضلع میرپور سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اردو نیوز نے ضلع میرپور کے زلزلہ متاثرین سے بات کی اور وہاں جاری امدادی سرگرمیوں کا احوال جاننے کی کوشش کی ہے۔
محمد وسیم کا تعلق میرپور میں زلزلے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے جاتلاں کے گاؤں سانگ سے ہے۔ محمد وسیم کہتے ہیں کہ جاتلاں کے علاقے سانگ میں قریباً 275 گھر مکمل تباہ ہو چکے ہیں اور پانچ گھر ایسے ہیں جن مین دراڑیں پڑ گئی ہیں لیکن پاک فوج کی ٹیم نے ان گھروں میں بھی رہنے سے منع کر دیا ہے کیونکہ آفٹر شاکس سے ان گھروں کے گرنے کا خدشہ ہے۔

حکام کے مطابق 2500 افراد کو راشن مہیا کر دیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد وسیم متاثرین کی روداد سناتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ’دو راتوں سے لگاتار بارش ہو رہی ہے اور ہم درختوں کے نیچے رات کاٹنے پر مجبور ہیں۔ خدارا ہمارے لیے سر ڈھانپنے کا کوئی بندوبست کریں، خیمے، کمبل یا بستر وغیرہ مل جائیں جس سے ہم خود کو ڈھانپ سکیں۔‘
محمد وسیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے گاؤں میں بھٹہ مزدور بھی بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں جن کا پہلے ہی مشکل سے گزارا ہوا کرتا تھا اب تو ان کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
ایک بھٹہ مزدور کی کہانی بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ’وہ غریب لوگ ہیں، ان کا تو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں، وہ خیمے مانگنے کے لیے جاتے ہیں تو انتظامیہ انہیں کہتی ہے کہ یہ ہمارا علاقہ نہیں آپ دوسرے علاقے (زون) میں آتے ہیں وہاں سے جا کر لیں۔ ایک تو زلزلے سے متاثرہ ہیں اوپر سے یہ ذہنی اذیت بھی دی جا رہی ہے۔‘ 

زلزلہ متاثرین کا کہنا ہے کہ علاقے میں خیموں کی کمی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

 محمد وسیم کہتے ہیں کہ ہمیں کھانے پینے کا سامان تو غیر سرکاری تنظیمیں پہنچا ہی رہی ہیں لیکن رہائش اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ’جن کے مکانات گر چکے ہیں وہ کیسے رہیں گے، اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خیموں کا ہے۔ کھانا اور پانی تو مل جاتا ہے لیکن رہائش کا کیا کریں گے۔‘
’خیموں کی تعداد اتنی کم ہے کہ ہم ایک خیمے میں 15 سے 20 افراد رہنے پر مجبور ہیں۔ چھوٹے بچے خیمے میں رات گزار لیتے ہیں لیکن گھر کے بڑے بارش سے بچنے کے لیے رات درختوں کے نیچے گزارتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے بچے رشتہ داروں کے گھر بھجوا دیے ہیں۔ گھر تو ہمارے تباہ ہو گئے ہیں وہ بنتے بنتے تو اب ایک عرصہ لگے کا لیکن ہمیں عارضی طور پر چھت کی اشد ضرورت ہے۔‘
محمد وسیم کے مطابق ان کے علاقے میں اس وقت 50 سے 60 خیموں کی اشد ضرورت ہے، میڈیکل کیمپس بھی موجود ہیں لیکن ان میں سہولیات اتنی نہیں کہ باقاعدہ علاج ممکن ہو۔ 

متاثرین کے مطابق ہسپتالوں میں زخمی بچے داخل نہیں کرا پا رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا ہے کہ وہ دو ایسے بچے دیکھ چکے ہیں جن کی ٹانگ اور بازو ٹوٹی ہوئی ہے اور ان کو صرف پٹی کی گئی ہے۔ ایک بھٹہ مزدور کی بچی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے جسے آپریشن کی ضرورت ہے لیکن ہسپتال میں رش کے باعث ڈاکٹر آپریشن کا وقت نہیں دے رہے۔
اسی طرح میرپور کے نواحی علاقے چتر پڑیاں کے مرزا محمد حنیف کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ انہیں بارش کے باعث اپنے گھر کے بچے کچھے سامان کے خراب ہونے کے پریشانی نے گھیر رکھا ہے۔ ’زلزے سے گھر تو تباہ ہو گئے اور اب تو سامان بھی تباہ ہونے کا ڈر ہے۔‘
’انہوں نے بتایا کہ بارش ہوئی تو ایک نئی مصیبت نے آ گھیرا۔ سامان کو بچانے کے لیے بڑے شاپرز کا استعمال کیا اور گھر کے سامان کو ڈھانپنے کی کوشش کی، بارش میں ہی اپنی مدد آپ کے تحت خیمے لگا کر سامان کو بچانے کی کوشش کی ہے۔‘

متاثرین کو بارش کے باعث گھروں میں سامان خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

محمد حنیف کہتے ہیں کہ کچھ خیمے تو مل گئے ہیں، ہمارے اپنے جاننے والے اور رشتہ دار راشن کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔ ’اب سامان کا  ڈر ہے کہ اسے کہاں لے کر جائیں، خیموں میں گھر کا سارا سامان تو نہیں آ سکتا لیکن جتنا رکھا جا سکتا ہے وہ رکھ دیا ہے باقی گھر کا سامان بارش سے خراب ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کے سبب پریشانیوں نے تو گھیر رکھا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ زندگی بچ گئی، باقی مسائل بھی اللہ حل کرے گا۔
محمد حنیف میرپور کے نواحی علاقے چتر پڑیاں کے ان بدقسمت رہائشیوں میں سے ایک ہیں جن کا زلزلے سے مکمل گھر تباہ ہو چکا ہے۔ ’ہمارے گاؤں میں صرف میرا اور میرے بھائی کا گھر ہی مکمل تباہ ہوا ہے، باقی علاقے کے گھروں میں دراڑیں پڑی ہیں۔‘ لیکن وہ پر امید ہیں کہ زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقے میں زندگی ایک بار پھر بحال ہو گی۔

حکام کے مطابق زلزلے سے 6 ہزار 919 پکے گھروں کو نقصان پہنچا۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کے مطابق راشن کے بیگز ابھی دور دراز علاقوں میں نہیں پہنچائے گئے۔ ’میرپور شہر میں تو راشن دیا جا رہا ہے لیکن دور دراز کے علاقوں میں راشن کا سامان ابھی نہیں پہنچا۔‘  
دوسری جانب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان حسین  کہتے ہیں کہ زلزے سے متاثرہ اکثر علاقوں میں خیمے اور راشن پہنچا دیا گیا ہے۔ ’قریباً 2000 خیمے اور 2500 راشن بیگز مہیا کیے گئے ہیں جن میں آٹا اور دال وغیرہ موجود ہے۔ پینے کے پانی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے منرل واٹر پہنچنا شروع ہو گیا ہے جسے جلد سے جلد متاثرین تک پہنچا دیا جائے گا۔‘
نعمان احمد نے کہا کہ میرپور ضلع کو چار زونز میں تقسیم کیا گیا ہے اور وہاں افسران متاثرین کی تعداد کے حساب سے امدادی سامان مہیا کر رہے ہیں۔ خاندان کے افراد کے حساب سے راشن اور خیمے دیے جا رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے سے 200 گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ فوٹو: روئٹرز

میرپور پولیس کے مطابق زلزلے سے 6 ہزار 919 پکے گھروں کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 419 گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق 1700 مٹی کے مکانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جن میں سے 1200 مکمل تباہ ہوئے جبکہ 500 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ 24 ستمبر کو آنے والے زلزلے سے میرپور میں 200 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ 580 مویشی خانوں کو نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ زلزلے سے 37 افراد کی میرپور اور ایک کی جہلم میں ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ہسپتال میں زخمیوں کی لائی گئی تعداد 665 تک پہنچ چکی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: