Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب طالب علم صحافی نے بڑی خبر بریک کی

امریکی کانگریس نے والکر کو حکم دیا تھا کہ ٹرمپ کے موخذے کے حوالے سے تفتیش کے سلسلے میں سوالات کے جواب دیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرینی صدر کے ساتھ متنازعہ گفتگو صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک شروع کرنے کے لیے تفتیش کا سبب بن گئی ہے اور اس وقت اس سے جڑی ہر خبر پر امریکی اور عالمی میڈیا کی نظریں ہیں۔
حال ہی میں صدر ٹرمپ کے یوکرین کے لیے نمائندہ خصوصی کرٹ والکر نے ٹرمپ کی یوکرین کے صدر ولاد میر زلینسکی سے ٹیلی فونک گفتگو میں اپنا نام آنے کے بعد اچانک استعفا دے دیا۔
چونکہ یہ استعفیٰ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے صدر کے لیے ایک دھچکا تھا اس لیے پل پل کی خبروں پر نظر رکھنے والے سھمجھتے ہوں گے کہ دنیا کے بااثر ترین امریکی یا دیگر عالمی میڈیا اداروں میں سے کسی نے یہ خبر پہلے دینے کا اعزاز حاصل کیا ہوگا۔

والکر کے استعفے کی خبر ’دی سٹیٹ پریس‘ کے 20 سالہ منیجنگ ایڈیٹر اینڈریو ہاورڈ نے بریک کی۔ فوٹو ٹویٹر

اگر آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں اور یقیناً ایسا ہی سمجھتے ہوں گے تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ خبر کسی عالمی نشریاتی ادارے، عالمی اخبارات یا وائر سروسز نے نہیں بلکہ ایک 20 سالہ طالب علم صحافی نے انٹرن شپ کے دوران اخبار میں بریک کی۔
صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی کرٹ والکر کے مستعفی ہونے کی خبر ایریزونا یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ پیپر ’دی سٹیٹ پریس‘ کے 20 سالہ منیجنگ ایڈیٹر اینڈریو ہاورڈ نے بریک کی اور دنیا کو بتایا کہ کرٹ والکر نے سٹیٹ ڈیپارٹمٹ میں اپنا سرکاری عہدہ چھوڑ دیا ہے۔
خیال رہے امریکی کانگریس کی کمیٹی نے والکر کو حکم دیا تھا کہ ٹرمپ کے موخذے کے لیے شروع کی جانے والی تفتیش کے حوالے  سے سوالات کے جوابات دیں ۔
خبر رسا ادارے اے ایف پی کے مطابق اینڈریو ہاورڈ  نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ انہوں نے اس خبر کے حوالے سے کوئی خاص طریقہ کار نہیں اپنایا۔ ’سب کو ایک ایسی خبر کی تلاش ہوتی ہے جس پر وہ کہے کہ ’آہا‘ اور ان کے خیال میں اس میں ایسا کچھ نہیں تھا۔

والکر نے مبینہ طور پر  سینئر یوکیرنی عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ہاورڈ کا کہنا تھا کہ وہ اس بڑی خبر میں مقامی زاویے کی تلاش میں تھے اور والکر چونکہ  یونیورسٹی کے نیشنل سکیورٹی انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ اور جب انہوں نے اس حوالے سے معلومات لینا چاہیں تو انسٹیٹیوٹ کے ایک اہلکار نے انہیں بتایا کہ والکر نے صدر کے نمائندہ خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
’مجھے اندازہ نہیں کہ ہم ایک بہت بڑی خبر بریک کرنے لگے ہیں۔‘ ہاورڈ اصل میں اپنی دوسری جاب جو کہ ’ایریزونا ریپبلک نیوز پیپر‘ میں انٹرنی کی تھا وہاں پر تھے۔ جب انہوں نے اس خبر کو بریک کیا تو اہم امریکی میڈیا کے اداروں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ اس خبر کو بریک کرنے کی دوڑ میں لگ گئے۔
خیال رہے ایک وسل بلوور کی شکایت میں صدر ٹرمپ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا کہ وہ سنہ 2020 کے الیکشن میں ان کے مدمقابل ڈیموکریٹس کے فیورٹ امیدوار جوئے بائیڈن پر کیچڑ اچھالیں۔
والکر نے مبینہ طور پر اس حوالے سے سینئر یوکیرنی عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھی۔

شیئر: