Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سیب درختوں پر چھوڑنا ہمارا احتجاج ہے‘

بعض تاجروں دعویٰ کر رہے ہیں کہ مقامی حکام مارکیٹیں معمول کے مطابق کھولنے کے لیے ان کو دھمکا رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیر کی وادی کے رہائشیوں میں نئی دلی کے خلاف تلخی میں شدت آرہی ہے اور اس کا اظہار کشمیر میں کسان اپنے سیبوں کو درختوں پر جان بوجھ کر سڑنے کے لیے چھوڑ کر کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سیب متنازعہ وادی کی سب سے پرکشش برآمدات میں شمار ہوتا ہے اور کشمیر کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ بلواسطہ یا بلاواسطہ سیب کی کاشت کاری سے وابستہ ہے۔  
خیال رہے کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا نے کشمیر کی داخلی خودمختاری کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرکے کمیونکیشن لاک ڈاؤن لاگو کیا ہوا ہے۔ ذرائع نقل و حرکت پر پابندی، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کے علادہ انڈیا نے کشمیر کے ہزاروں سویلین بشمول سیاسی رہنماؤں کو پابند سلاسل کیا ہے۔

ایک کاشتکار نے کہا کہ سیب اتارنے پر انڈیا دنیا کو بتائے گا کہ کشمیر میں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اے ایف پی کے مطابق کشمیری کسان نئی دلی کے اقدامات کے خلاف غصے کے اظہار یا شدت پسندوں کے کہنے پر ایک ایسی فصل کو تباہ کرنے لگ گئے ہیں جو مقامی معیشت کے لیے بہت اہم ہے۔
ہمالیہ کی زرخیز وادی ہر سال کروڑوں ڈالرمالیت کے سیب پیدا کرتی ہے اور آدھے سے زیادہ کشمیری بلا واسطہ یا بالواسطہ سیب کی کاشت سے وابستہ ہیں۔
شوپیاں ضلع کے مرکزی علاقے  میں واقع اپنے باغ سے غلام نبی ملک اور ان کے بھائی ہر سال عموماً سیب کے سات ہزار کریٹس فروخت کرتے ہیں جس سے انہیں ستر لاکھ انڈین روپوں سے زیادہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس وقت ان کا باغ بند پڑا ہوا ہے اور درخت سیبوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہیں کیونکہ غلام نبی ملک اور ان کا بھائی سیب اتار نے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے غلام نبی ملک نے کہا کہ ’سیبوں کو بس درختوں پر ہی سڑنے دیں۔‘
ان کا کہنا ہے ’سیب کاشت کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ انڈیا دنیا کو بتائے گا کہ کشمیر میں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔‘
غلام نبی ملک نے کہا کہ ’کشمیر میں سب کچھ نارمل نہیں بلکہ نارمل کے قریب بھی نہیں۔‘

 

اے ایف پی کے مطابق وادی میں شدت پسندوں نے خطوط اور پوسٹرز کے ذریعے باغات کے مالکان سے کاشت کاری کے بجائے ’مزاحمت‘ میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔
لکڑی کے کھبے پر آویزاں ایک ایسے ہی پوسٹر جس پر ایک مقامی کمانڈر کے دستخط ہیں لکھا ہوا ہے کہ ’سیب کے کاشت کار اور طالب علم اس سال کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ شہدا کے خون سے غداری کے لیے تیار نہیں۔‘
تاہم کئی کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق حال ہی میں نریندر مودی کی جماعت کے قریب سمجھے جانے والے ایک بڑے مقامی زمین دار پر حملہ بھی ہوا ہے۔
ایک گاؤں میں ایک سابق پولیس آفیسر، جس نے ایک باغی گروپ میں شامل ہونے کیے لیے پولیس کی نوکری چھوڑ دی ہے،  نے سیب کی پیکنگ کے لیے اپنے خاندان کی جانب سے خریدے گئے کریٹس کو آگ لگائی۔

نئی دہلی کے کشمیر ایپل مرچنٹ ایسوسی ایشن کے میٹھا رام کرپلانی کا کہنا ہے کہ سیب کی ترسیل میں صرف 25 فیصد کمی آئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اگرچہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ شدت پسندوں نے ٹرکوں کو مجبور کیا کہ وہ سیب کی ترسیل کے لیے سڑکوں پر نہ آئیں تاہم مقامی لوگوں کا اصرار ہے کہ شدت پسند اس سال ہونے والی سیب کی بھرپور فصل کو تباہ کرنے کے پیچھے نہیں۔
غلام نبی ملک کا کہنا تھا کہ ’پکے ہوئے سیبوں کو درخت پر  سڑنے کے لیے چھوڑنا واحد احتجاج ہیں جو ہم موجودہ حالات میں کرسکتے ہیں۔‘ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں سے زیادہ انڈین سکیورٹی فورسز سے خوفزدہ ہیں جو رات کو گاؤں سے نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’خوف (شدت پسندوں کا) ہے لیکن یہ ایسا نہیں جیسا کہ لوگ سٹیٹ فورسز سے خوفزدہ ہیں۔‘
ریاستی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں سیب کے کاشت کاروں کو سکیورٹی مہیا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ حکومت نے کسانوں سے سیب براہ راست خریدنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ حکومت کا اصرار ہے کہ اس کے اقدامات کارگر ثابت ہو رہے ہیں۔
نئی دہلی کے کشمیر ایپل مرچنٹ ایسوسی ایشن کے میٹھا رام کرپلانی کا کہنا ہے کہ سیب کی مارکیٹ میں ترسیل میں صرف 25 فیصد کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سیب کے خریداروں کا سب سے بڑا مسئلہ ریاست میں جاری کمیونکیشن لاک ڈاؤن کی وجہ سے فونز کا کام نہ کرنا ہے۔

 

تاہم جن کسانوں سے اے ایف کی بات ہوئی انہوں نے حکومتی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ شوپیاں اور کشمیر کے دوسرے علاقوں میں موجود پھلوں کی مارکیٹس خالی پڑی ہیں۔
کچھ تاجروں نے دعویٰ کیا کہ مقامی حکام نے ان کو دھمکایا کہ وہ مارکیٹں معمول کے مطابق کھولیں۔
مقامی کسانوں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ  بشیر احمد بشیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام نے انہیں دھمکی دی کہ اگر مارکیٹ میں دکانیں نہیں کھولیں گے تو انہیں مسمار کر دیاجائے گا۔  ان کا کہنا تھا کہ حکام کی دکانیں کھلوانے کی دھمکیوں کے باوجود مارکیٹس ویران پڑی ہیں۔
انڈین وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انڈیا مخالف 30 سالہ شورش کے دوران ہزاروں لوگ مارے گئے اور ان کی حکومت نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اقدام کشمیر میں ’جاری دہشت گردی کے شیطانی سرکل، تشدد، علیحدگی اور کرپشن‘ کے خاتمے کے لیے اٹھایا۔ نئی دلی کا کہنا ہے کہ کشمیری انڈین حکومت کے اقدام کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن وہ کھلم کھلا حمایت اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں ’پاکستان کی پشت پناہی سے چلنے والے دہشت گردوں‘ کا خوف ہے۔

شیئر: