اومی نور نے پرائمری سکول میں 42 سال پڑھایا ہے، فوٹو: روئٹرز
ایسے بھی اساتذہ ہوتے ہیں جو محض ایک طالب علم کے مستقبل کی خاطر اپنی زندگی قربان کر دیتے ہیں۔
61 سالہ ’اومی نور‘ بھی ایک ایسی ہی استانی ہیں جن کے پاس ریٹائر ہونے کا اختیار تھا لیکن انہوں نے اپنے نو سالہ شاگرد کی خاطر ملازمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اومی نور کا تعلق روس کے صوبہ سائبیریا سے ہے جو اپنی قدری خوبصورتی اور شدید سردی کے لیے مشہور ہے۔
اومی نور سائبیریا کے ’سیبل یاکوفو‘ نامی گاؤں کے واحد پرائمری سکول میں پڑھاتی ہیں جہاں کبھی بچوں کی گہما گہمی رہتی تھی، لیکن اب نو سالہ ’راوِل‘ اس سکول کا واحد طالب علم ہے جس کے بہتر مستقل کے لیے ’اومی نور‘ ریٹائرمنٹ نہیں لینا چاہ رہیں۔
لیکن اگلے سال راول کے چوتھی جماعت پاس کرنے کے ساتھ ہی اومی نور بھی ریٹائر ہو جائیں گی، اور اس کے ساتھ ہی سکول کے دروازے بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔
اومی نور نے اس پرائمری سکول میں 42 سال سے زیادہ عرصے تک پڑھایا ہے۔
1970 کی دہائی میں جب سوویت یونین معاشی طور پر مستحکم تھا، تو اس پرائمری سکول کی ہر کلاس میں 18 بچے ہوتے تھے، اور گاؤں کی آبادی 550 افراد پر مشتمل تھی۔
1990 کے بعد جب سوویت یونین کی معیشت متاثر ہونا شروع ہوئی تو سائبیریا کے دیگر گاؤں کی طرح ’سیبل یاکوفو‘ سے بھی لوگوں نے شہروں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔
اومی نور کے گھر کے ارد گرد تمام مکانات خالی پڑے ہیں اور گاؤں کی کل آبادی صرف 39 افراد پر مشتمل ہے۔
اومی نور نے ریٹائرمنٹ کے بعد 50 کلومیٹر کے فاصلے پر تلسا نامی شہر میں باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تب تک سکول کا واحد طالب راوِل بھی اتنا بڑا ہو جائے گا کہ وہ ہمسایہ گاؤں کے سکول تک سفر کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
سب سے قریبی سکول ارتش دریا کے پار 50 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ کشتی کے ذریعے 30 منٹ کا فاصلہ طے کر کے دریا پار کیا جاتا ہے، جہاں سے پھر 20 منٹ کی مسافت طے کر کے سکول بس بچوں کو ان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔
اومی نور کا کہنا تھا کہ وہ راوِل کے لیے افسردہ ہیں ’لیکن راول کے والدین یہ گاؤں ابھی نہیں چھوڑنا چاہتے، اور اتنے چھوٹے بچے کو روزانہ دریا کے اس پار بھجوانا خطرناک ہے۔‘
راول کے والدین کسان ہیں اور انہوں نے مویشی پال رکھے ہیں، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر گاؤں میں ہی رہے۔
راول کے والدین نے بتایا کہ ان کے باقی بچے شہر میں رہتے ہیں اور ان کو اس بات کی خوشی ہے۔
دوسری جانب راول کا کہنا ہے کہ انہیں شہر میں رہنے کا کوئی شوق نہیں لیکن شاید اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔
لیکن راول ہمسایہ گاؤں کے بڑے سکول میں جانے کے لیے خوش ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ اب اس کو دوست بنانے کا موقع ملے گا۔
اومی نور کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ یہ گاؤں چھوڑ کر دوسری جگہ جا رہی ہیں لیکن وہ اس گاؤں میں گزارا ہوا ماضی بھول نہیں پائیں گی۔
’میرے والدین یہاں دفن ہیں، تو میری زندگی کا اہم حصہ یہاں ہے۔ ہم ہر اہم دن یہاں منایا کریں گے، جب لوگ اپنے پیاروں کو یاد کرنے آیا کریں گے، ہم اپنے پیاروں کی قبروں کا خیال رکھنے آیا کریں گے۔‘