’شہباز شریف چاہیں بھی تو ان کو استعفی نہیں دینے دیں گے‘
’شہباز شریف چاہیں بھی تو ان کو استعفی نہیں دینے دیں گے‘
ہفتہ 12 اکتوبر 2019 6:05
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان کا سیاسی میدان ایک مرتبہ پھر گرم ہے، اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ایسے میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن ابھی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شریک ہو گی یا نہیں۔
ان حالات میں سب سے زیادہ تنقید کی زد میں خود مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ہیں، جن کے بارے میں مقامی میڈیا یہ رپورٹس چلا رہا ہے کہ وہ دھرنے کے مخالف ہیں اور پارٹی اجلاسوں میں کھل کر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
اردو نیوز نے مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات کو جانچنے کے لیے پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا انٹرویو کیا ہے۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں ان تمام ابہام کو رد کیا ہے کہ مسلم لیگ ن دھرنے پر تذبذب کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ فیصلہ وہی ہو گا جو پارٹی یا پارٹی قیادت کرے گی۔ شہباز شریف پارٹی صدر ہیں، ان کے پاس بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے لیکن فیصلہ متفقہ ہی ہو گا۔
کیا شہباز شریف ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں؟
سردار ایاز صادق کا مؤقف اپنی جگہ لیکن میڈیا میں بہرحال یہ خبریں ضرور گردش کر رہی ہیں کہ شہباز شریف ٹکراؤ کی پالیسی نہیں چاہتے اور وہ پارٹی اجلاسوں میں اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ میڈیا نے یہاں تک بھی خبریں چلائی ہیں کہ شہباز شریف سیاست سے ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں۔
سابق سپیکر سے جب اس سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’کیا آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی ریٹائرمنٹ کی عمر ہو گئی ہے؟ وہ جوان آدمی ہیں، ذہنی اعتبار سے وہ 40 سال کے ہیں اور انہوں نے کام کر کے دکھایا ہے۔‘
’یہ بات کہنا کہ شہباز شریف ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں میرے خیال میں ان کی عمر ابھی ریٹائر ہونے والی نہیں ہے، وہ ریٹائرمنٹ کے اعتبار سے ابھی بہت جوان ہیں۔ ہم انہیں ریٹائرمنٹ لینے بھی نہیں دیں گے، اگر انہوں نے کبھی سوچا بھی تو ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’شہباز شریف کمر کے شدید درد میں مبتلا ہیں اور بعض اوقات وہ تکلیف کے باعث پارٹی اجلاسوں میں بھی کھڑے رہتے ہیں۔‘
دوسری طرف مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق شہباز شریف اپنے اختلاف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور جمعرات کے روز وہ اپنے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نواز شریف سے ہفتہ وار ملاقات کے لیے جیل بھی نہیں گئے۔ مقامی میڈیا اس بات کو بھی شہباز شریف کے اختلافات سے جوڑ رہا ہے۔
سوال اب بھی وہی ہے کہ ن لیگ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں باقاعدہ شریک ہو گی یا محض ’اخلاقی‘ حمایت پر ہی گزارہ کرے گی؟
اس سوال پر سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ’وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا ایک حلقہ فوری تحریک کے شروع نہ ہونے پر نالاں ہے۔‘
’جو لوگ قیادت پر تنقید کر رہے ہیں انہیں اصل حالات کا نہیں پتا، وہ اپنی اس تنقید سے اپنا بھی نقصان کر رہے ہیں اور جماعت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہماری قیادت تنہا نہیں مشاورت سے فیصلے کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک تو یہ بھی واضح نہیں کہ دھرنے کی حکمت عملی کیا ہے، میں خود بھی مولانا سے رابطے میں ہوں۔ یہ کہنا کہ ہماری پارٹی میں دراڑ ہے ایسی کوئی بات نہیں۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ جب تک پورا پس منظر پتا نہ ہو ایسی بات نہیں کرنی کر چاہیے۔‘
مسلم لیگ ن کی اکثریت کیا چاہتی ہے؟
سابق سپیکر قومی اسمبلی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر احتجاج میں شرکت کا فیصلہ اکیلے شہباز شریف نے نہیں کرنا تو پھر پارٹی کی اکثریت کا جھکاؤ کس طرف ہے اور وہ کیا چاہتی ہے؟
اس پر سابق سپیکر نے کچھ یوں جواب دیا، ’پوری مسلم لیگ ن کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ 2018 کے الیکشنز منصفانہ نہیں تھے۔‘
’صرف ن لیگ کی قیادت ہی نہیں بلکہ جو لوگ جیت کے حکومت میں بیٹھے ہیں ان کو بھی پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے، بلکہ پورے پاکستان کو پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں تو یہ ہماری بے وقوفی اور نا سمجھی ہو گی۔‘
ایاز صادق نے کہا کہ ’ہم چاہتے تھے کہ جمہوریت چلے، ہماری کوشش بھی تھی کہ جمہوریت چلے لیکن اب پورے پاکستان کو پتا ہے کہ ان کی اہلیت کیا ہے۔‘
’مجھے فکر اس بات کی ہے کہ یہ لوگ عمران کو بچاتے بچاتے ملک کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ عمران خان کو بچانا ہے یا پاکستان کو بچانا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی مدت پوری کریں لیکن یہ ایسا کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔‘
مسلم لیگ ن دھرنے میں حصہ لے گی؟
مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں مسلم لیگ ن کی شرکت کے سوال پر سردار ایاز صادق نے بتایا کہ ’انشاء اللہ مسلم لیگ ن دھرنے میں حصہ لے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب یہ دھرنا ہوتا ہے یا جلسہ، ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہے، اس لیے رہبر کمیٹی اس احتجاج سے متعلق مولانا سے سوالات پوچھے گی، ہو سکتا ہے کہ ایک چھوٹی کل جماعتی کانفرنس بھی بلا لی جائے۔‘
’میری مولانا سے جمعرات کی رات بات ہوئی تھی اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ دھرنے سے متعلق متضاد اطلاعات آ رہی ہیں، 27 اکتوبر کو مارچ شروع کرنا ہے یا اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ 27 ہے؟‘
’اس پر مولانا نے بتایا کہ ان معاملات پر ابھی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ جب یہ حکمت عملی ہم تک پہنچے گی تو اس کے بعد ہی ہمارا پلان بھی مرتب ہو گا۔‘
حکومت ججز کی مدت ملازم کیوں بڑھانا چاہتی ہے؟
موجودہ سیاسی کشمکش میں حکومت آئین میں ایک ایسی ترمیم لانا چاہ رہی ہے جس سے ججز کی مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ ہو جائے گا، اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’حکومت ججز کی مدت ملازمت کیوں بڑھانا چاہتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’جیسے جیسے انسان بوڑھا ہوتا ہے تو اس کے اندر توانائی کی کمی ہوتی جاتی ہے۔ مجھے خود اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ وکلا برادری اس حوالے سے ہمارے ساتھ رابطے میں ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ ہم مدت ملازمت کم کرنے کے خواہاں تو ہیں لیکن مدت بڑھانے کے حق میں قطعاً نہیں ہیں۔‘
’ملتان میں حال ہی میں وکلا کنونشن ہوا ہے اور یہ چیز مجھے کسی اور طرف جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ شاید کوئی ایک وکیل ہو جو اس معاملے پر ان کے ساتھ ہو، یا جو چیز وہ لانا چاہ رہے ہیں اس سے ایک نئی وکلا تحریک بھی جنم لے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’جب یہ ایسا کر نہیں سکتے تو کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟‘
’سابق سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت جس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے وہ کون ہے؟ یہ کسی کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہم تو یہ کرنا چاہ رہے ہیں لیکن مجھے یہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔‘
بیرون ملک سے تحریک انصاف کی فنڈنگ کے کیس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’اگر الیکشن کمیشن نے فیصلہ میرٹ پر دیا تو یہ مقدمہ تحریک انصاف کی قبر کھود دے گا۔‘