Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایم ڈی سی کی تحلیل پر تشویش؟

حکومت نے پی ایم ڈی سی کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کر دیا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
پاکستان میں ڈاکٹروں اور صحت کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کر دیا گیا ہے۔ میڈیکل کالجز اور ڈاکٹرز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس متعارف کیا گیا یے جس سے ادارے کی مکمل تشکیل نو کی جائے گی۔ 

پاکستان میڈیکل کمیشن میں نیا کیا ہے؟ 

پاکستان میڈیکل کمیشن 9 افراد پر مشتمل ہوگا جن کی نامزدگی وزیر اعظم کریں گے۔ 
کمیشن میں تین ممبران کا تعلق سول سوسائٹی سے، تین کا میڈیکل شعبے سے، اور ایک ممبر کا تعلق ڈینٹل کے شعبے سے ہوگا۔ 
ڈینٹل اور میڈیکل سے تعلق رکھنے والے ممبران کے لیے 20 سال کا تجربہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آرمڈ فورسز میڈیکل سروس کے سرجن جنرل اور صدر کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان بھی کمیشن کے ممبران ہوں گے۔ کمیشن کی مدت تین سال ہوگی ۔
نیشنل میڈیکل اتھارٹی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔
کمیشن میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی پر مشتمل ہوگا۔

نیشنل میڈیکل اتھارٹی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔ فوٹو پی ایم ڈی سی

نئے قانون کے تحت لائسنس کی تجدید سمیت تمام اختیارات کمیشن کو دے دیے گئے ہیں۔ 
آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کے تمام ملازمین کو چھ ماہ کی اضافی تنخواہ دے کر برطرف کردیا گیا ہے، تاہم آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے لیے نئی بھرتیوں کے عمل میں نکالے گئے ملازمین کو ترجیح دی جائے گی۔ 
اس سے پہلے پی ایم ڈی سے کے پچاس فیصد ممبران الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر آتے تھے اور دیگر کو نامزد کیا جاتا تھا۔ 
کمیشن کے قائم ہونے کے بعد میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ سے پہلے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ لیا جائے گا اور اس کا اطلاق 2019 میں میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے طلباء سے ہوگا۔ 
اس سے قبل میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے صرف انٹری ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔ 
میڈیکل کالج کے طلبا کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد لائسینس حاصل کرنے کے لیے ’نیشنل لائسینسنگ ٹیسٹ‘ دیں گے جس کے بعد ہاؤس جاب کے لیے وہ اہل ہوں گے۔ ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد فل لائسینس حاصل کرنے کے لیے دوبارہ امتحان دینا یوگا جس کے بعد پریکٹس کی اجازت ہوگی۔ 

میڈیکل کالج کے طلبا کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد لائسینس کے لیے ’نیشنل لائسینسنگ ٹیسٹ‘ دیں۔ فوٹو اے ایف پی

کمیشن کے قیام پر طلباء اور ڈاکٹرز کا اظہار تشویش

گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبرپختونخوا کے ترجمان ڈاکٹر حضرت اکبر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرنے کو آمرانہ سوچ قرار دیا ہے۔
’نوشیروان برکی عمران خان کے کزن ہیں انہوں نے پہلے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں کا بیڑا غرق کیا اب وفاقی اور پنجاب کا بھی وہی حال کرنے جا رہے ہیں۔‘ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت پی ایم ڈی سی کو پارلیمنٹ سے ایکٹ کے ذریعے تحلیل کرنا چاہ رہی تھی، لیکن وہاں حکومت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اب راتوں رات آرڈیننس لا کر آمریت کا مظاہرہ کیا اور یہ پاکستان کے صحت کے شعبے کی تباہی ہے۔‘
ڈاکٹر حضرت اکبر نے کمیشن کی تشکیل کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے الیکشن ہوا کرتا تھا، اب کمیشن کے ممبران کو نامزد کیا جائے گا اور ظاہر ہے اس میں وہی لوگ نامزد ہوں گے جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ 
’اس کمیشن کے قیام سے ڈاکٹرز کمیونٹی کو اپنے ادارے سے بے دخل کر دیا گیا یے۔ جہاں الیکشن کے بجائے کسی کے پاس ممبران کی نامزدگی کا اختیار ہوتا ہے وہاں اقرباء پروری کا کلچر عام ہو جاتا ہے۔ جو کمیشن کی تشکیل کا طریقہ کار ہے اس سے پرائیوٹ مافیا کو کھلی چھوٹ مل جائے گی اور معاشرے کے باثر شخصیات اب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو چلائیں گے۔‘

 

ڈاکٹر حضرت اکبر نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشاورت کر رہے ہیں کہ عدالت میں جانے کے علاوہ کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ 
’مجھے لگتا ہے کہ جو ایک کروڑ نوکریوں کی بات ہورہی تھی وہ اب اس طرح اداروں پر قبضہ کر کے اپنے ورکرز کو بھرتی کریں گے۔‘
ڈاکٹر حضرت اکبر نے نئے کمیشن کے تحت امتحانات پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’ایک ڈاکٹر سپیشلائیزیشن کرنے تک دس سے پندرہ بار کمیشن کے امتحان دے گا۔‘
’پی ایم ڈی سی کے ساتھ تمام ڈاکٹرز کی رجسٹریشن ہوتی تھی جس کی تین چار سال بعد تجدید کی جاتی ہے، لیکن نئے قانون کے مطابق لائسینس کے لیے ایک الگ امتحان رکھا گیا یے۔ لائسینس کے لیے تو صرف ڈگری جمع کرائی جاتی ہے سمجھ نہیں آرہی کہ ڈگری لینے کے بعد امتحان کی کیا ضرورت ہے۔‘ 
پاکستان ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عاطف حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آرڈیننس لانے سے پہلے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتی تو بہتر ہوتا۔
’اس آرڈیننس سے پرائیویٹ سیکٹرز کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی، اب جتنے قواعد و ضوابط بنیں گے وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے لوگ بنائیں گے۔‘ 

 

اب ہر میڈیکل کالج پر کوئی فیس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔
’گزشتہ سال میڈیکل کالجز کی فیسوں کو محدود کر دیا گیا تھا اور میریٹ پر ہی طلباء کو داخلے ملتے تھے لیکن اب جس کے پاس پیسے ہوں گے وہ داخلہ لینے کا اہل ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد بھی ایک ٹیسٹ دیا جائے گا اور اسکی فیس وصول کی جائے گی۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نظام نہیں کہ کمیشن کا ٹیسٹ پاس کرنے تک یونیورسٹی آپ کو ڈگری نہیں دے گی۔

سوشل میڈیا پر بحث

پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرکے پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کرنے کے لیے جاری آرڈیننس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔ اس وقت پی ایم ڈی سی کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔

رضوان یعقوب نامی صارف نے حکومتی اقدام پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’ تو جو سلسلہ بیوروکریسی اور پولیس ریفارمز سے شروع ہوا تھا اس کا احتتام پی ایم ڈی سی کی تحلیل پر ہوا۔ میں عمران خان اور پی ٹی آئی کا  کٹر حامی رہا ہوں لیکن مزید نہیں۔‘

میشا نامی صارف نے حکومتی اقدام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’ ڈاکٹرز اس امتحان سے کیوں خوفزدہ ہیں۔ جب آپ نے چار، پانچ سال کلیئر کر لیا تو اس ایگزام کو بھی کر لو، رو کیوں رہے ہوں سیلف فنانس والے ہو کیا؟‘

عدنان یوسفزئی نے ٹویٹ کیا کہ ’ پی ٹی آئی گورنمنٹ معاملات کو بد سے بدتر بنا رہی ہے۔ ہمیں اس سے بڑے ایشوز کا سامنا ہیں۔ ڈاکٹروں کے لیے زندگی اجیرن بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہ لوگ پاکستان کے ہیلتھ کیئر کے نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘

انجنیئر میاں ایوب نے پی ایم ڈی سی کے تحلیل کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ اچھا اقدام، حکومت کو ان تمام نام نہاد ڈاکٹروں کو باہر پھینکنا چاہیے جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہسپتالوں کے پورے نظام کو مفلوج کردیا ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ میں کیا خرابی ہے؟ یہ پبلک کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہیں لیکن ڈاکٹرز نظام کو اپنی خواہش کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: