پاکستان میں ڈاکٹروں اور صحت کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کر دیا گیا ہے۔ میڈیکل کالجز اور ڈاکٹرز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس متعارف کیا گیا یے جس سے ادارے کی مکمل تشکیل نو کی جائے گی۔
پاکستان میڈیکل کمیشن میں نیا کیا ہے؟
پاکستان میڈیکل کمیشن 9 افراد پر مشتمل ہوگا جن کی نامزدگی وزیر اعظم کریں گے۔
کمیشن میں تین ممبران کا تعلق سول سوسائٹی سے، تین کا میڈیکل شعبے سے، اور ایک ممبر کا تعلق ڈینٹل کے شعبے سے ہوگا۔
ڈینٹل اور میڈیکل سے تعلق رکھنے والے ممبران کے لیے 20 سال کا تجربہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آرمڈ فورسز میڈیکل سروس کے سرجن جنرل اور صدر کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان بھی کمیشن کے ممبران ہوں گے۔ کمیشن کی مدت تین سال ہوگی ۔
نیشنل میڈیکل اتھارٹی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔
کمیشن میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی پر مشتمل ہوگا۔
نئے قانون کے تحت لائسنس کی تجدید سمیت تمام اختیارات کمیشن کو دے دیے گئے ہیں۔
آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کے تمام ملازمین کو چھ ماہ کی اضافی تنخواہ دے کر برطرف کردیا گیا ہے، تاہم آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے لیے نئی بھرتیوں کے عمل میں نکالے گئے ملازمین کو ترجیح دی جائے گی۔
اس سے پہلے پی ایم ڈی سے کے پچاس فیصد ممبران الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر آتے تھے اور دیگر کو نامزد کیا جاتا تھا۔
کمیشن کے قائم ہونے کے بعد میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ سے پہلے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ لیا جائے گا اور اس کا اطلاق 2019 میں میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے طلباء سے ہوگا۔
اس سے قبل میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے صرف انٹری ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔
میڈیکل کالج کے طلبا کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد لائسینس حاصل کرنے کے لیے ’نیشنل لائسینسنگ ٹیسٹ‘ دیں گے جس کے بعد ہاؤس جاب کے لیے وہ اہل ہوں گے۔ ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد فل لائسینس حاصل کرنے کے لیے دوبارہ امتحان دینا یوگا جس کے بعد پریکٹس کی اجازت ہوگی۔
کمیشن کے قیام پر طلباء اور ڈاکٹرز کا اظہار تشویش
گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبرپختونخوا کے ترجمان ڈاکٹر حضرت اکبر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرنے کو آمرانہ سوچ قرار دیا ہے۔
’نوشیروان برکی عمران خان کے کزن ہیں انہوں نے پہلے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں کا بیڑا غرق کیا اب وفاقی اور پنجاب کا بھی وہی حال کرنے جا رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت پی ایم ڈی سی کو پارلیمنٹ سے ایکٹ کے ذریعے تحلیل کرنا چاہ رہی تھی، لیکن وہاں حکومت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اب راتوں رات آرڈیننس لا کر آمریت کا مظاہرہ کیا اور یہ پاکستان کے صحت کے شعبے کی تباہی ہے۔‘
ڈاکٹر حضرت اکبر نے کمیشن کی تشکیل کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے الیکشن ہوا کرتا تھا، اب کمیشن کے ممبران کو نامزد کیا جائے گا اور ظاہر ہے اس میں وہی لوگ نامزد ہوں گے جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔
’اس کمیشن کے قیام سے ڈاکٹرز کمیونٹی کو اپنے ادارے سے بے دخل کر دیا گیا یے۔ جہاں الیکشن کے بجائے کسی کے پاس ممبران کی نامزدگی کا اختیار ہوتا ہے وہاں اقرباء پروری کا کلچر عام ہو جاتا ہے۔ جو کمیشن کی تشکیل کا طریقہ کار ہے اس سے پرائیوٹ مافیا کو کھلی چھوٹ مل جائے گی اور معاشرے کے باثر شخصیات اب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو چلائیں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
صحت انصاف کارڈ ،7 لاکھ 20 ہزار تک علاج مفتNode ID: 387316
ڈاکٹر حضرت اکبر نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشاورت کر رہے ہیں کہ عدالت میں جانے کے علاوہ کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔
’مجھے لگتا ہے کہ جو ایک کروڑ نوکریوں کی بات ہورہی تھی وہ اب اس طرح اداروں پر قبضہ کر کے اپنے ورکرز کو بھرتی کریں گے۔‘
ڈاکٹر حضرت اکبر نے نئے کمیشن کے تحت امتحانات پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’ایک ڈاکٹر سپیشلائیزیشن کرنے تک دس سے پندرہ بار کمیشن کے امتحان دے گا۔‘
’پی ایم ڈی سی کے ساتھ تمام ڈاکٹرز کی رجسٹریشن ہوتی تھی جس کی تین چار سال بعد تجدید کی جاتی ہے، لیکن نئے قانون کے مطابق لائسینس کے لیے ایک الگ امتحان رکھا گیا یے۔ لائسینس کے لیے تو صرف ڈگری جمع کرائی جاتی ہے سمجھ نہیں آرہی کہ ڈگری لینے کے بعد امتحان کی کیا ضرورت ہے۔‘
پاکستان ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عاطف حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آرڈیننس لانے سے پہلے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتی تو بہتر ہوتا۔
’اس آرڈیننس سے پرائیویٹ سیکٹرز کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی، اب جتنے قواعد و ضوابط بنیں گے وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے لوگ بنائیں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
وسعت اللہ خان کا کالم: تہذیب کی درفنتنی!Node ID: 438531