Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہری کے ڈوبتے کاروبار کو بچانے کے لیے پورا شہر جمع

گذشتہ دنوں ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بننے والے ایک ہیش ٹیگ نے سعودی معاشرے کی ہم آہنگی، یکجہتی، الفت اور محبت کے علاوہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بھر پور عکاسی کی ہے۔
ٹوئٹر پر ایک ریستوران کے مالک نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا کہ ’بھائیو! دھندہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے 40 لاکھ  ریال کا نقصان ہو گیا ہے، مجھ پر 17 لاکھ ریال کا قرض ہو گیا ہے جسے ادا نہ کیا گیا تو جلد ہی جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔‘
بس پھر کیا تھا، ویڈیو وائرل ہوتے ہی ٹویٹر اور سنیپ چیٹ کے سٹارز نے ریستوران کی مفت تشہیر شروع کر دی، ڈلیوری کمپنیوں نے مفت کھانا ڈلیور کرنے کی آفر کی اور لوگوں کا جم غفیر ’کشری‘ کھانے کے لیے ٹوٹ پڑا۔ 

مسئلہ اس وقت ہواجب ٹرین چلانے کے لیے مختلف شاہراہوں پر کھدائی کا کام ہوا (فوٹو: ٹوئٹر)

ہوا کچھ یوں کہ ریاض کے البدیعہ محلے میں مدینہ جیسی مرکزی روڈ پر ایک سعودی نوجوان ابو حمود نے دو سال پہلے ریستوران کھولا۔
’کشری الباشا‘ نام کے ریستوران میں مصر کی معروف ڈش ’کشری‘ کے علاوہ باربی کیو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں رہنے والوں کو معلوم ہے کہ ’کشری‘ بڑے مزے کی ڈش ہے مگر پاکستان یا دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والوں نے شاید یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا ہوگا۔
’ کشری‘ دراصل سفید چاولوں کے ساتھ خشک دال اور مکرونی سے بنتی ہے۔ اوپر دیگر لوازمات بھی شامل کئے جاتے ہیں تو بڑے مزے کی بن جاتی ہے۔
شروع شروع میں ابو حمود کا ’کشری الباشا‘ خوب چلا۔ صاف ستھرا ریستوران ہونے کے ساتھ معقول قیمت میں اچھا کھانا ملتا تھا۔ 
لوگوں کی توجہ ریستوران کے کھانے سے زیادہ کیشیئر کے پیچھے لگے ہوئے بورڈ پر رہتی جسے ابو حمود نے بڑے اہتمام کے ساتھ لگایا تھا۔
اس بورڈ میں لکھا ہے’جسے کھانے کی ضرورت ہے اور اس کے پاس رقم نہیں ہے وہ کھانا مفت لے جاسکتا ہے‘۔
مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ریاض گورنریٹ نے شہر بھر میں ٹرین چلانے کا منصوبہ شروع کیا تو شہر کی مختلف شاہراہوں پر کھدائی کا کام ہوا۔
ایک سال پہلے کھدائی کا کام ابو حمود کے ریستوران کے سامنے شروع ہوا تو مین روڈ کو بند کردیا گیا۔ اب ابو حمود کے ریستوران تک پیدل تو پہنچا جاسکتا تھا اور وہ بھی گاڑی دور کھڑی کرنی پڑتی تھی مگر گاڑی پر جانا مشکل تھا۔

ابو حمود نقصان برداشت کر رہے تھے یہاں تک کہ یہ پہاڑ 40 ریال تک بن گیا (فوٹو: ٹوئٹر)

ریستوران کے سامنے ریلوے کا پل بن رہا ہے جس کے باعث وہاں گاڑیوں کی پارکنگ نہیں ہے۔ منصوبے کی وجہ سے جہاں پوری شاہراہ بند ہوگئی وہاں ابو حمود کا کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا۔
ابو حمود گذشتہ ڈیڑھ سال سے نقصان برداشت کر رہے تھے یہاں تک کہ یہ پہاڑ 40 ہزار ریال تک بن گیا۔ کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو وقت پر ادائیگیاں نہیں ہوسکیں تو 17 لاکھ ریال کا قرض سر پر الگ چڑھ گیا۔
حالات نے جب بہت تنگ کیا تو ابو حمود نے گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے ریستوران اور سامنے بننے والے منصوبے کو دکھایا اور کہا کہ ’ریلوے پل کی وجہ سے مجھے نقصان ہوگیا ہے اور میں لوگوں کا مقروض ہوگیا ہوں‘۔ 
اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’کاروبار میں کچھ حرکت پیدا کرنے کے لیے میں نے ٹوئٹر اور سنیپ چیٹ کے کئی اسٹارز کو فون کیا کہ وہ آئیں اور ریستوران کی تشہیر کریں مگر انہوں نے جس رقم کا مطالبہ کیا وہ موجودہ حالات میں دینے کے قابل نہیں ہوں‘۔
ویڈیو جب وائرل ہوئی تو وہی سٹارز جو ریستوران کی تشہیر کے لیے بڑی رقم کا مطالبہ کر رہے تھے، مفت میں تعاون کرنے پر تیار ہوگئے۔ 
ریاض شہر کا کوئی سٹار اور مشہور شخصیت ایسی نہ تھی جو ابوحمود کے ’کشری الباشا‘ نہیں گئی اور ویڈیو بنا کر اسے شیئر نہیں کیا اور اپنے فالورز کو وہاں جانے کا مشورہ نہیں دیا۔
سب نے ’کشری الباشا‘ ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کیں تو دیکھتے ہی دیکھتے ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن گیا۔ پھر کیا تھا، لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔

کیشئر کے پیچھے بورڈ میں لکھا ہے’ جسے کھانے کی ضرورت ہے اور اس کے پاس رقم نہیں ہے وہ کھانا مفت لے جاسکتا ہے‘۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

صرف یہی نہیں بلکہ سعوی عرب میں کھانا پہنچانے والی جتنی بھی ایپلی کیشنز ہیں سب نے تعاون کرتے ہوئے ابو حمود کے ساتھ معاہدے کیے۔ کسی نے کہا کشری الباشا سے آرڈر کرنے پر ایک ماہ، کسی نے دو ماہ اور کسی نے تین ماہ تک مفت ڈلیوری کی پیشکش کی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، سعودی عرب کے مختلف تجارتی اداروں نے بھی آگے بڑھ کر تعاون کیا۔ ایک بڑے بینک نے آفر کی کہ ابو حمود ہمارے صدر دفتر کے کینٹین میں آکر اپنا ریستوران کھولیں، اتصالات کے ایک بڑے ادارے نے کہا کہ ہفتہ میں ایک دن تمام ملازمین کو کھانا ابو حمود فراہم کریں گے، گیس سپلائی کرنے والے ادارے نے پیشکش کی کہ کشری الباشا کو مفت گیس سلنڈر فراہم کئے جائیں گے، ایک ٹی وی چینل نے تمام اینکروں کے لیے کھانا منگوایا اور آن ایئر کردیا بلکہ بی سی سی عربک سمیت دیگر معروف چینلوں میں ابو حمود کی اسٹوری دکھائی گئی۔
آخری بات جو تمام باتوں کا خلاصہ اور پورے واقعہ کو سمجھنے کی کلید ہے۔
 ابوحمود نے اپنے ریستوران میں کیشئر کے پیچھے ایک بورڈ نصب کیا تھا ۔ 
یاد ہے اس پر کیا لکھا تھا، ’جسے کھانے کی ضرورت ہے اور اس کے پاس رقم نہیں ہے وہ کھانا مفت لے جاسکتا ہے‘۔
ابوحمود نے محض بورڈ ہی نہیں لگا یا ہوا تھا بلکہ ڈوبتے وقت ان کی غیبی مدد کا سبب یہی تھا کہ وہ کار خیر میں آگے بڑھنے والوں میں سے تھے۔
مہند نامی ایک نوجوان کی ٹویٹ ملاحظہ کریں، کہتے ہیں ’میں ایک خیراتی ادارے کے ساتھ کام کرتا ہوں، خدا کی قسم رمضان المبارک میں ہمارے پاس کشری الباشا سے روزانہ 50 افراد کا کھانا مفت تقسیم کرنے کے لیے آتا تھا‘۔
اب معلوم ہوا کہ ابوحمود کی غیبی مدد کیونکر ہوئی؟
  • خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: