اسرائیل ڈیفنس فورس نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے حملوں کا نشانہ ’اسلامک جہاد‘ ہے، جو کہ غزہ میں حماس کے بعد سب سے طاقتور عسکریت پسند جماعت ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ پر تازہ حملوں کا آغاز تب ہوا جب غزہ کی جانب سے اسرائیل پر پانچ راکٹ فائر ہوئے، جن میں سے دو کو ہوائی دفاع سے روک لیا گیا۔ فوج کے مطابق یہ راکٹ جنگ بندی کے عمل کے بعد فائر کیے گئے۔
ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے عوام کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔
جنگ بندی مصر اور اقوام متحدہ کے حکام نے کرائی ہے، جو کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان اکثر ثالث کا قردار ادا کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ مزید تنازعات کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔
محمود جاردہ نام کے مقامی شخص کا کہنا تھا ہم جنگ نہیں چاہتے۔ فوٹو: اے ایف پی
تاہم دن کے دوران اسرائیل کے غزہ کی سرحد کے نزدیک والے علاقوں میں زندگی معمول پر آ گئی تھی۔
محمود جاردہ نام کے مقامی شخص کا کہنا تھا، ’ہم امن کی امید رکھتے ہیں، ہم جنگ نہیں چاہتے۔‘
اسرائیل اور غزا کے درمیان تنازعہ منگل کی صبح بڑھا، جب اسرائیل نے اسلامک جہاد کے کمانڈر باہا ابو العطا کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
اسرائیل کے مطابق مارے جانے والا کمانڈر راکٹ اور دوسرے حملوں میں ملوث تھا۔
تنازعات کا آغاز اسرائیل کے لیے ایک حساس موقع پر ہوا ہے کیونکہ وہاں ستمبر سے نئی حکومت نہیں ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ابو العطا کے گھر پر حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ’درجنوں اور دہشت گردوں کے ساتھ ہلاک کیا گیا‘۔
’ہمارے دشمنوں کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ ہم کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں، ان کے بستروں تک بھی۔‘
اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں اسلامک جہاد نے بھی جوابی کارروائی کی۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اسلامک جہاد نے منگل کی صبح سے 450 راکٹ فائر کیے۔
اسرائیل میں جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں