29 مئی 1988 کو جونیجو حکومت اور قومی اسمبلی توڑنے کے بعد آئینی طور پر مجبور جنرل ضیا کو 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کرنا پڑا۔
17 اگست 1988 کو جہاز کے حادثے میں ان کی ہلاکت کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے اس اعلان کی پاسداری کی، لہٰذا شیڈول کے مطابق انتخابات منعقد ہوئے۔
اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں ڈاکٹر سرفراز میر کی رہائش گاہ پر آٹھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اجلاس میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد قائم ہوا۔ مورخین و محققین کے مطابق آئی جے آئی کا قیام آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ صحافتی حلقے اس کو آئی جے آئی کے بجائے آئی ایس آئی اتحاد کہتے رہے۔
چونکہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت عروج پر تھی، اس صورت میں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی انتخابات میں حصہ لینے پرآمادہ نہ تھے، وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ تنہا پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتے، چنانچہ ان کو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے اور ان کے حوصلے بلند کرنے کے لیے اس اتحاد کو بنایا گیا تھا۔
اگرچہ اتحاد کی تمام تر سیاست نواز شریف کے گرد گھومتی تھی لیکن غلام مصطفیٰ جتوئی کو اس کا صدر اور جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔
اس اتحاد کا مقصد جو کہ بعد میں بھی عیاں ہوا، پیپلز پارٹی کے مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور پیپلز پارٹی کو مشکل میں ڈالنا تھا۔
بعض محققین کے نزدیک یہ اتحاد جنرل ضیاالحق کی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور ان کی باقیات کو اقتدار میں شامل کرنے کے لیے بنا تھا۔
جنرل ضیا کے بعد منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ریلے میں بڑے بڑے سیاسی بُرج الٹ گئے جن میں پیرپگاڑا، غلام مصطفیٰ جتوئی، محمد خان جونیجو، اصغرخان، غوث بخش بزنجو، ممتاز بھٹو اور الہٰی بخش سومرو کے نام سر فہرست تھے۔
نتائج کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے 93، آئی جے آئی نے 54، مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے 13، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سات، عوامی نیشنل پارٹی نے دو جبکہ باقی چھوٹی پارٹیوں نے ایک ایک نشست حاصل کی، اسی طرح 27 اراکین اسمبلی بھی آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ گئے۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان اور سندھی وڈیروں کا کندھاNode ID: 431511
-
’لاڑکانہ کے لوگوں نے بھٹو کو دفنا دیا‘Node ID: 438756
-
’مولانا کے سول نافرمانی پلان کی حمایت نہیں کرتے‘Node ID: 443486
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے ایک روز پہلے پنجاب کے اخبارات میں ’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘ کے اشتہارات شائع ہوئے۔ یوں آئی جے آئی کو پنجاب اسمبلی میں 240 نشستوں میں سے 109 نشستیں حاصل ہوئیں۔ نواز شریف کی سربراہی میں پنجاب میں حکومت بنائی گئی۔
ان انتخابات میں کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی جس کی وجہ سے جوڑ توڑ کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ آئی جے آئی نے بھی اکثریت کا دعوٰی کیا اور فرمائش کی کہ پہلے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہو۔ اس میں جس جماعت کی اکثریت ثابت ہو اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔
بینظیر کو کئی امور پر سمجھوتے کرنا پڑے اور حصول اقتدار کے لیے انہیں بھاری قیمت چکانا پڑی۔ بڑی شرائط یہ تھیں کہ غلام اسحاق خان کو ملک کا آئندہ صدر منتخب کیا جائے گا۔ افغان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ وزیرخارجہ صاحب زادہ یعقوب علی خان ہی ہوں گے۔ دفاع اور خارجہ امور میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔
یہ شرائط ماننے کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کیا۔
حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو کئی ایک معاہدے کرنا پڑے۔ ایم کیو ایم کی 13 نشستیں تھیں۔ وہ تیسری بڑی قوت تھی، لہٰذا پیپلز پارٹی نے اس کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا جو ’معاہدہ کراچی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کی سوانح عمری کے مصنف بروک ایلن لکھتے ہیں کہ ’انہیں متعدد امور پر آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل اور صدر غلام اسحاق خان سے الجھنا پڑا۔
انہوں نے ان سے بعض لڑائیاں جیتیں لیکن بالآخر ہار گئیں۔‘ تمام کوششوں اور شدید خواہش کے باوجود وہ محبوب الحق کو وزارت خزانہ سے ہٹا نہ سکیں۔
بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ انہیں ہٹانے کے لیے آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے تحت حکومت میں آنے کے پانچ ماہ بعد ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ بعض آڈیو ٹیپ ریکارڈنگ اور مہران بینک سکینڈل سامنے آیا۔ اگرچہ یہ تحریک ناکام ہوئی لیکن ان کی حکومت کی حساسیت بڑھ گئی۔ بالآخر صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کا الزام لگا کر دو سال کے اندر ان کی حکومت کو ختم کر دیا۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مشروط اقتدار نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ ضیا کی سیاسی باقیات دراصل عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/کالمز اور بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں