’پہلے حراستی مراکز کی حیثیت کا تعین ہو گا پھر آگے بڑھیں گے‘
’پہلے حراستی مراکز کی حیثیت کا تعین ہو گا پھر آگے بڑھیں گے‘
بدھ 20 نومبر 2019 20:41
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
فاٹا پاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کی، فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے فاٹا پاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
بدھ کے روز سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’ہمیں اس معاملے کی قانونی اور آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔‘
عدالتی روسٹرم پر موجود اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ’میری طبعیت آج ٹھیک نہیں، اہم اور حساس نوعیت کا کیس ہے، اس لیے التوا کی درخواست نہیں کرتا لیکن آج دوسرے فریق کو سن لیں تاکہ سماعت ملتوی نہ ہو۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام بیرونی خطرات اور جارحیت سے نمٹنا ہے، آرٹیکل 245 کا دوسرا حصہ سول انتظامیہ کی مدد کرنے کے لیے فوج کو طلب کرنا ہے۔ آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہو گی اور فوج کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار صوبوں کا نہیں وفاق کا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مجھے ایک چیز سمجھائیں کہ 25 ویں آئینی ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا اور نہ ہی نئے قوانین کے بارے میں کچھ واضح ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’وفاق اور صوبے دونوں کو قانون سازی کا اختیار ہے۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’فوج سے متعلق قانون سازی صوبے کا اختیار نہیں۔‘
بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آپ ہمارے سوالوں کا سیدھا جواب دیں۔ لگتا ہے آپ خود بھی مطمئن نہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’مجھے بخار ہے مکمل صحت یاب ہونے کے بعد اپنے دلائل دے سکوں گا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’اگر آپ دلائل نہیں دے سکتے تو آئے کیوں ہیں؟‘ اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل کے درمیان گرما گرمی ہو گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’آپ جارحانہ ہو رہے ہیں، اگر آپ نے جارحانہ ہونا ہے تو میں دلائل نہیں دے سکتا۔‘
اس دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ کیس ملتوی نہ ہو لیکن اگر آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں تو ملتوی کر دیں گے۔ پہلے ہم آئینی اور قانونی طور پر اس معاملے کو دیکھیں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کسی کو حراست میں لینے کا اختیار صوبوں کے پاس ہی ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’پہلے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا تعین کریں گے پھر آگے بڑھیں گے۔ قانون سازی آئین کے خلاف ہوئی تو آرٹیکل 245 کا تحفظ نہیں ملے گا۔‘
چیف جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل سے پوچھا کیا وہ اس معاملے میں عدالت کی معاونت کر سکتے ہیں؟ خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایک اختیار فوجی آپریشن اور دوسرا گرفتار افراد کے ٹرائل کا ہے، ٹرائل اور گرفتار افراد کے حوالے سے قانون صوبے ہی بنا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ انتہائی اہم، سنجیدہ اور قانون کی تاریخ کا معاملہ ہے، یہ کئی ہزار خاندانوں اور لاکھوں لوگوں کا معاملہ ہے، اس اہم کیس کے لیے سپریم کورٹ کے پانچ ججز بیٹھے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے صوبائی حکومت کے وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’لا منسٹری کو جا کر کھنگالیں، چیک کریں قوانین بنے کیسے؟ کیوں اس کی نوبت آئی؟ پتہ کریں کوئی ایسی سمری بنی بھی تھی یا بس ایسے ہی دستخط ہو گئے۔ میں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا لیکن کہیں نہ کہیں قابلیت کا بھی فقدان لگتا ہے۔ کوشش کریں کہ ہمیں مطمئن کریں ورنہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں