Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پانی کے لیے احتجاج‘: طلبہ پر غداری اور بغاوت کا مقدمہ

ایف آئی آر کے مطابق طلبا کا تعلق سندھی قوم پرست جماعت سے ہے اور انہوں نے ریاست مخالف نعرے بازی کی۔ (فائل فوٹو:اے ایف پی)
سندھ یونیورسٹی جامشورو  کے طلبا کے خلاف کیمپس سکیورٹی کی جانب سے بغاوت اور غداری کے مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس اقدام سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا ہے کہ طلبا کا تعلق سندھی قوم پرست جماعت سے ہے اور انہوں نے ریاست مخالف نعرے بازی کی۔ مقدمے میں فراز چانڈیو، ایاز لاکھڑ، امیر شاہ، حالار کھوسو سمیت 18 طلبا کو نامزد کیا گیا ہے۔
یہ احتجاج 31 اکتوبر کی شام میں ہوا تھا جبکہ کیمپس کی سکیورٹی یونٹ کے انچارج غلام قادر پنھور نے 18 نومبر کو واقعے کا مقدمہ جامشورو تھانے میں درج کروایا جس میں طلباپر غداری اور ملک سے بغاوت کا الزام لگایا گیا ہے۔ 
کیمپس سکیورٹی انچارج انسپکٹر غلام قادر پھنور سے جب اس واقعے پر وضاحت چاہی تو انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا اور موقف دینے سے انکار کیا۔
دوسری جانب سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد برفت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ مقدمہ ان کے کہنے پر درج نہیں ہوا اور وہ اس معاملے سے قطعی طور پر لا علم تھے۔ انہوں نے واقعے کی تحقیقات کروانے کا حکم دیتے ہوئے طلبا کے خلاف سنگین نوعیت کی ایف آئی آر درج ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ 

ان طلبا کے مطابق ہاسٹلز میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے (فوٹو:یونیورسٹی طلبا)

حالار، امیر اور دیگر نامزد طلبا  کا کہنا ہے کے وائس چانسلر نے ان سے رابطہ کر کے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔ دوسری جانب نامزد طلبا ضمانت قبل از گرفتاری کروا رہے ہیں، امیر شاہ نے بتایا کہ انہوں نے چار ساتھیوں کے ہمراہ کل ضمانت کروائی جبکہ باقی طلبا نے بھی ضمانت کے لیے وکیل کا بندوست کر لیا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جامعہ میں امتحانات ہونے والے ہیں اور نامزد طلبا کو فکر ہے کہ کہیں اس سب کا اثر ان کے تعلیمی سال پر نہ پڑے۔ طلبا کا کہنا تھا کہ جس دن ایف آئی آر درج ہوئی اس دن ان کا وائیوا تھا لیکن وہ نہیں دے پائے۔
سندھ یونیورسٹی کے ریاضی ڈپارٹمنٹ کے فائنل ائیر کے طالب علم امیر شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کے ان کے ہاسٹلز میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، حتیٰ کے پینے کا پانی بھی اکثر نہیں ملتا۔ متعدد بار یونیورسٹی انتظامیہ کو اس حوالے سے درخواست دینے کے باوجود جب کوئی اقدام نہیں ہوا تو انہوں نے اکتوبر میں یونیورسٹی کے داخلی دروازے پر احتجاج کیا اور مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی جس کے بعد طلباپر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے حالار کھوسو نے بتایا کے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی یا طلباتنظیم سے نہیں اور یہ احتجاج تو ہوسٹل کے رہائشی طلبا نے اپنے مطالبات کے حق میں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھی چھوٹی نوعیت کے احتجاج ہوئے تھے جس کے بعد دو مرتبہ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ہوسٹل بلڈنگ سے متصل واٹر فلٹر پلانٹ لگایا جائے گا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کے بعد مظاہرے کی نوبت آئی۔

پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلبا وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کرتے ہیں (فائل فوٹو:اےا یف پی)

امیر شاہ نے بتایا کے دراصل یونیورسٹی کے اطراف اور ہوسٹل بلاک کی بھی کچھ عمارتوں پر 16 نومبر کو ریاست مخالف نعرے بازی لکھی گئی جس کے ذمہ داروں کا تعین ابھی تک نہیں ہو سکا۔
 طلبا نے الزام عائد کیا کہ کیمپس سکیورٹی پر مامور پولیس انسپکٹر نے معاملے کی تفتیش کرنے کی بجائے اس واقعے کے مقدمے میں ہمیں نامزد کردیا۔

 

شیئر: