Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنی بیٹیوں کو اُڑنے دیجیے

ہر بار کی طرح اس بار بھی خود کو لاکھ سمجھایا ہے کہ اپنی بات نہیں کرنی۔ گفتگو کا آغاز میں سے نہیں کرنا۔ اب دیکھیے نا، آپ چاہتے تو اس وقت میں کچھ بہتر کر سکتے تھے۔ جہاز اڑا سکتے تھے۔ کشمیری ٹانکے سے بستر کی چادریں کاڑھ سکتے تھے۔ پائے بنا سکتے تھے۔ لیکن آپ نے اپنا قیمتی وقت اس نالائق کی بات سننے میں گزارنا زیادہ اہم سمجھا۔ آپ دل کے اچھے ہیں۔ زباں نظر نہیں آتی اور شکل پر فلٹر لگ جاتے ہیں۔ اصل گیم دل کی ہی ہے۔
یہ قصہ ہے آج سے کئی بہاریں پہلے کا۔ آپ سے التماس ہے کہ ہمارا حساب آزمانے کی کوشش مت کیجیے گا۔ نہ آپ کو کچھ حاصل ہو گا نہ ہمیں۔ جی تو کہاں تھے ہم؟ ارے ہاں، لڑکپن کا ذکر ہو رہا تھا۔ 
دل چاہتا تھا کہ لال سرخی لگائیں۔ سر پر کالے رنگ کی ہیٹ جمائیں اور لیڈی ولنگٹن بن کر سیر کو نکل جائیں۔ یہ شوق اس قدر سنگین تھا کہ بقول والدہ ماجدہ کے ہم بچپن میں کہیں باہر جاتے تو گھر کا گیٹ دیکھتے ہی رونے لگتے کہ افوہ گھر کیوں آ گئے۔
وقت کے ساتھ یہ شوق بڑھتا گیا۔ لڑکیاں ہم سفر کے خواب دیکھتی ہیں اور ہمارا خواب تو بس سفر تھا۔ جی چاہتا تھا کہ ہمارے پر ہوں جن کے دوش پر ہم ہمالیہ کے پہاڑ دیکھیں۔ پر تھک جائیں تو سائیکل پر چترال کی سیر کریں۔
تھکاوٹ بہتر ہو جائے تو بیجنگ کے بازار دیکھیں۔ بازار میں بکتی ڈمپلنگ کھائیں ۔ تھائی لینڈ کے سمندروں میں تیراکی کریں۔ ترکی میں گرم غباروں کا نظارہ کریں۔ وینس کی گلیوں میں دیوانہ وار لیلیٰ لیلیٰ گاتے پھریں۔
ایمسٹرڈیم میں بے خود ہو جائیں۔ سوئس ایلپس پر طلوع ہوتا سورج دیکھیں۔ سپین کے کلیساؤں میں اذان ڈھونڈیں۔ روم میں ماضی رفتہ کی تلاش کھوجیں۔
بکنگھم پیلس جا کر اپنے ملک کے ساتھ کیے گئے برطانوی مظالم رقم کریں۔ خود جا کر کہنے کی اور بات ہوتی ہے۔ کسی سے کہلوانے کا وہ اثر نہیں ہوتا۔
میکسیکو کے بازاروں میں ہونے والی خفیہ گفتگو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ کھُسر پھُسر سننے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی ڈرگ ڈیلر ہمارے پیچھے پستول لے کر لپکے تو پھر سے اپنے پر لگا لیں اور سیدھا آک لینڈ جا کر ہی دم لیں۔ پینگوئنوں کی بولی سیکھیں۔ کینگروؤں سے دوڑنا سیکھیں، اور جب یہ سب کر چلیں تو گھر آ کر امی کی گود میں سر رکھ کر اور ٹانگیں گول کر کے لیٹ جائیں۔

لڑکیاں ہم سفر کے خواب دیکھتی ہیں اور ہمارا خواب تو بس سفر تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

امی کو اپنے سارے قصے سنائیں۔ بھائی کو اپنی بہادری کے کچھ فرضی قصے بھی سنائیں کہ وہ اپنی باجی کی عظمت کے بوجھ سے نہ اٹھ پائے اور ہمیں چار دن سموسے تلنے کا نہ کہے اور بس سو جائیں۔
یہی خواب تھا۔ یہی پورا نہ ہوا۔
گھر والوں کے لیے یہ جملہ اہم تھا کہ شادی کر کے جہاں مرضی جانا۔ جو مرضی کرنا۔ شاید وہ ہمیں حقیقی زندگی کے بارے میں بتانا بھول گئے جہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ شادی کے بعد کی زندگی افسانے سے کس قدر مختلف ہوتی ہے، یہ تو بعد میں ہی پتا چلا۔ سب کچھ دیکھ کر اور پھُونک پھُونک کر کرنا ہو گا، یہ ہمیں گھر والوں نے نہیں بلکہ شادی نے بتایا۔

گھر والوں کے لیے یہ جملہ اہم تھا کہ شادی کر کے جہاں مرضی جانا۔ جو مرضی کرنا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ ہم نے یوں ہی کئی شہر اور ملک گھوم لیے۔ لیکن مقصد سیاحت نہ تھا بلکہ میاں کا روزگار تھا۔
نئی دنیا دیکھی تو کئی نئی ثقافتوں سے رابطہ بھی ہوا۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہ بہت پیارا شہر ہے۔ یہاں دنیا کے سب ملکوں کے لوگوں نے مل کر اپنا نیا جہاں آباد کیا ہے۔ بہت سے لوگ سیاحت کو بھی آتے ہیں۔
گہ حسین ہے۔ لوگ کیوں نہ آئیں؟ ان ہی میں کئی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ کئی ٹولیوں میں آتی ہیں۔ کئی اپنے چاہنے والوں کے ساتھ آتی ہیں جن سے شاید وہ سال بھر بعد اُکتا جائیں۔ کچھ اکیلی بھی آتی ہیں۔ 
یہ کیا آتی ہیں۔۔۔ ہمارے پرانے خواب لوٹ آتے ہیں۔ لال سُرخی لگا کر دریا میں مچھلیاں پکڑنے کا خواب آتا ہے۔ اب لال سرخی بھی ہے اور دریا بھی۔ لیکن وہ ولولہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ اب صرف خواب یاد آتا ہے۔ اس کی تعبیر سے سروکار نہیں رہا۔ ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
پاکستان سے سب سے مضبوط رشتہ سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے۔ اسی پر دیکھتے رہتے ہیں کہ باہر کے ملکوں سے لڑکیاں پاکستان کی سیاحت کو آ رہی ہیں۔ اچھا لگتا ہے۔ لیکن پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا کسی پاکستانی لڑکی کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اکیلی سائیکل پر برابر کی دکان سے دودھ بھی لے آئے۔
 سوچتے ہیں کہ کیا اب بھی لڑکیاں وہی خواب دیکھتی ہوں گی جو ہم نے اپنے جہیز کے صندوق میں بند کر دیے؟
کیا اب بھی لڑکیوں کو دنیا دیکھنے سے یہی کہہ کر روک دیا جاتا ہو گا کہ جو کرنا ہے شادی کے بعد کرنا؟

لڑکیوں کو شادی کے بعد بھی ماں باپ کے گھر تک جانے کے لیے اجازت لینا پڑتی ہے، دنیا کی سیر تو چھوڑیے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کیا اب بھی لڑکیوں کو شادی کے بعد ماں باپ کے گھر تک جانے کے لیے اجازت لینا پڑتی ہے، دنیا کی سیر تو چھوڑیے؟
اگر ان سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو ذرا اپنے گریبان میں جھانکیے۔ اپنے ارد گرد چلتے خواہشات اور خوابوں کے قبرستانوں کو دیکھیے جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں لیکن آنکھوں میں ایک سمندر ہے۔
کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیوں کی آنکھوں کی چمک کو دیکھیے جو دل میں مستقبل کے کئی سپنے سجائے بیٹھی ہیں۔ خُدارا انہیں جیتے جاگتے انسان جانیے جن کی زندگی کا واحد مقصد آپ کی عزت کی رکھوالی ہی نہیں بلکہ اپنے خوابوں کی آبیاری بھی ہونا چاہیے۔
 کبھی کبوتر بازی دیکھتے تھے تو سوچتے تھے کہ یہ پرندے لوٹ کر پنجرے کو کیوں آتے ہیں۔ دُور آسمانوں میں اُڑ کر واپس اپنے گھر کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ ان کے مالک کو ڈر نہیں لگتا؟
اب خیال آتا ہے کہ پرندوں نے تو گھر لوٹنا ہی ہوتا ہے بھلے وہ پنجرہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے مالک کو ان کی جبلت پر بھروسہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کے گھر والوں کو یہ اعتماد کیوں نہیں؟ 
اگر ہمارے گذشتہ سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو ہم کہے سنے کی معافی مانگتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہی اس مُلکِ خُداداد کی سیر کو چلتے ہیں جہاں سب ہرا ہے۔ سب نیا ہے۔ دور پار کے سب ڈھول سہانے ہیں۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ ہم سے غلطی ہوئی کہ اول فول بک بیٹھے۔ پڑھ کر ڈیلیٹ کر دیجیے تو ہماری دعاؤں کا ثمر اس دنیا اور آخرت دونوں میں پائیے۔ آداب۔۔۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: