Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں ابھی اور جینا ہے، زندہ رہنا ہے

اپنے بارے میں سچ سننا بہت مشکل ہے اور سچ خود بیان کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔
ویسے سچی بات ہے کہ خود پر تنقید کرنا بہت مشکل کام ہے۔ خود پر تنقید سننا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی سے اپنی خامی بتانے  کا کہا جائے تو عمومی جواب یہی آتا ہے کہ مجھے ہر کسی پر جلدی اعتبار کر لینے کی عادت ہے۔ میں بہت حساس ہوں۔ میں کسی کا برا نہیں چاہ سکتی/سکتا وغیرہ وغیرہ۔
باوجود اس کے کہ معاشرے پر کئی بار کسی پرانی لاش کے تعفن کا گمان ہوتا ہے کسی میں کوئی خامی ہے ہی نہیں۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ میری ذات میں کینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنے علاوہ سب غلط لگتے ہیں۔ میں راہ چلتے کوڑا پھینکتا ہوں۔ مجھے اپنے علاوہ کسی کا دکھ بڑا نہیں لگتا وغیرہ وغیرہ۔
سچ کہیں تو ہم نے بھی ہمیشہ یہی گھسے پٹے جواب دیے اور اصل بات کو ہمیشہ گول ہی کر گئے۔ اپنے بارے میں سچ سننا بہت مشکل ہے۔ اور اپنا سچ خود بیان کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ لیکن ڈر کے آگے جیت ہے۔ آج تو ہو ہی جائے۔ تو لیجیے شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے۔ اللہ خیر بیڑے پار۔
ہماری امی جان کو ہم سے شکایت ہے کہ ہم جب سے پاکستان سے باہر آئے ہیں لوگوں سے زیادہ ملتے جلتے نہیں۔ جب دبئی تھے تو اکثر کہا کرتی تھیں کہ اپنے ارد گرد کے پاکستانیوں سے میل جول رکھو۔ پردیس میں برے وقت میں کام آتے ہیں۔ عید تہوار پر کچھ میٹھا بنا کر بھیجو۔ اپنے گھر آنے کی دعوت دو وغیرہ وغیرہ۔ ان کو ہم سے یہ شکایت بھی ہے کہ ہمارا دماغ عجیب ہے کہ کسی سے بھی ہماری بن ہی نہیں پاتی۔ ہر کسی سے کچھ دیر میں اکتا جاتے ہیں۔ لوگوں کو ملنے سے جان جاتی ہے۔ ماں ہیں۔ ہم سے دور ہیں۔ ان کی پریشانی بجا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں۔ نہ بھی سمجھ سکیں تو کم از کم سمجھنے کی ایکٹنگ تو کر ہی سکتے ہیں کہ کم از کم ان کی ہم سے متعلق کوئی ایک فکر تو دور ہو۔
امی جان یہ نہیں جانتیں کہ یہ اتنا سہل نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ وطن سے دور اپنی پاکستانی برادری کا یہی مسئلہ ہے کہ ان کے لیے یا تو ماضی رک چکا ہے یا بالکل غائب ہو چکا ہے۔ یہ یا تو اسی پاکستان میں پھنس کر رہ گئے ہیں جو یہ کئی سال پہلے چھوڑ کر آئے تھے یا پھر دیس سے وابستہ ہر یاد اور پہچان کو یکسر بھلا چکے ہیں۔ 

ملک سے دور رہتے ہوئے ملک میں رہنے والوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنا کیسا ہے؟ (فوٹو اے ایف پی)

 یہ دونوں قسم کے لوگ دیکھنے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں لیکن پاکستان سے متعلق خیالات میں بالکل ایک ہیں۔  ملک کے لیے ان کے دل میں درد بالکل ایک ہی نوعیت کا ہے۔ ان کو اس بات کا بہت احساس ہے کہ پاکستان میں معاشرہ زبوں حالی کی جانب گامزن ہے۔ ملک میں رہنے والے سب لوگ ان کے نزدیک اپنے انحطاط کے ذمہ دار خود ہیں۔ زندہ انسانوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی پوسٹس ان کے نزدیک زیادہ معتبر ہیں۔ کسی کے گھر بجھتا چولہا انہیں کبھی نظر نہیں آئے گا لیکن اخباروں میں چھپنے والے حکومت کے بلند و بانگ اعلان پر حدیث کی طرح ایمان لے آئیں گے۔ 
مغرب میں رہ کر ہر قسم کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم مفت ہے۔ وقت سے اوپر کام کرنے پر اوور ٹائم کماتے ہیں۔ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ صاف ہوا اور خالص خوراک کھاتے ہیں۔ اپنے ملک میں دن رات رشتے داروں کی سیاست سے آزاد ہیں۔ برقع پہنیں یا بکنی، کسی کو ان کو نظر اٹھا کر دیکھنے کا شوق نہیں۔ کوئی ان کو ان کے خاندانی پس منظر کے مطابق کمتر یا برتر نہیں جانتا۔ بڑھاپے کی گزر بسر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ علاج معالجے پر ایک ٹکے کا خرچہ نہیں۔
لیکن پھر بھی ان کا رونا یہی ہے کہ پاکستان والوں کو پاکستان کی قدر نہیں۔ اگر ویب سائٹ پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کہ معیشت دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے تو وہاں رہنے والوں کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں پڑتی؟ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار ٹھپ ہو گئے تو یہ انہی کی نالائقی ہے۔ انہی کی کام چوری ہے۔ چار دن تکلیف کیوں نہیں سہہ سکتے؟ دنیا کی عظیم قوموں نے بھی تو یوں ہی ترقی کی ہے۔ کس نے کہا کہ ڈینگی کی ویکسین پر پابندی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں؟ سرکاری ہسپتالوں میں جان بچانے کی ادویات نہیں مل رہیں کیونکہ لوگوں کو عقل ہی نہیں کہ دوائی کیسے لیتے ہیں۔ سب بکواس کرتے ہیں۔ سب ٹھیک ہے۔ 

رونا یہی ہے کہ پاکستان والوں کو پاکستان کی قدر نہیں (فوٹو اے ایف پی)

پاکستان میں سب عیاشی سے رہتے ہیں۔ ہم بھی جائیں گے۔ جھٹ سے کاروبار جمائیں گے۔ پیر پر پیر دھرے سیٹھ بنے بیٹھے رہیں گے۔ ایک دن اپنے وطن لوٹیں گے۔ خوب پیسہ کمائیں گے۔ وہاں پیسہ کمانا بہت آسان ہے۔ بس لوگوں کو آتا نہیں ہے۔ انہیں ہم سکھائیں گے۔
جھیل پر بیٹھے ایک ڈاکٹر صاحب اعلان فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان واپس جا رہے ہیں کہ وہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ تاریخ کا اعلان نہیں فرماتے۔ ان ہی کے بھائی بندوں سے کبھی یہ پوچھئے کہ حضور کب تک تمام اسباب بیچ کر اسی جنت نظیر منتقلی کا ارادہ ہے تو جواب میں صرف انشاءاللہ ہی ملے گا۔ ان سے آلو اور چینی کا تازہ ریٹ پوچھئے تو یہ خلا میں ایک غیر مرئی نکتے کو تکتے ہوئے عوام کو لیکچر دیں گے کہ وہ صبر سے کام لیں۔ 
جن ملکوں میں رہتے ہیں وہاں سب سے لبرل پارٹی کو ووٹ دیں گے لیکن اپنے ہاں ایسی حکومت چاہیں گے جو مذہب کے نام پر اور تفرقہ بازی کی بنیاد پر ہی قائم ہو۔
یہ کی بورڈ کے جہادی تمام غزوات اسی کی بورڈ سے فتح کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بس یہی عقل کل ہیں۔ یہی حق ہیں۔ اگر پاکستان ترقی کرنا چاہتا ہے تو پاکستانیوں کو ان دو کشتیوں میں سوار مسافروں کو اپنے کندھوں ہر سوار کرنا ہو گا کہ یہ ان ہی کا حق ہے۔ پاکستان والے تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کو انسان ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کو کیا درکار ہے۔ اور وہ انسان سمندر پار پاکستانی ہی ہیں۔ باقی سب ہیر پھیر ہے۔
ملک سے دور رہتے ہوئے ملک میں رہنے والوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ان کو ان ہی کے مسئلوں کا حل بتانا تو کوئی ان سے سیکھے۔ عامل بابا بنگالی کے بعد تمام پوشیدہ اور غیر پوشیدہ مسائل کا حل ان ہی کے ہاتھ کا میل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ واقعی صحیح کہتے ہوں۔ ہو سکتا ہے سب مایہ ہو۔ ہمیں کیا پتہ۔۔۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں ہمارا سانس بند ہو جاتا ہے۔
آپ ہی بتائیے کہ امی جان کو کیسے سمجھائیں کہ باوجود اس کے کہ ہم بھی آسٹریلیا کی محفوظ فضاؤں میں بیٹھے ملکی مسائل پر صفحے کے صفحے کالے کیے دیتے ہیں، پردیس میں رہنے والے پاکستانیوں سے دوستی کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر پاکستان سے باہر آ کر بھی اسی تنگ اور سفاک سوچ کا سامنا کرنا ہے تو ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ ہم اکیلے ہی بھلے ہیں۔ ذرا سے دوغلے ہیں لیکن کوئی بات نہیں۔ بیشک ہمارے ساتھ بیٹھ کر کوئی اردو میں باتیں نہیں کرتا لیکن خیر ہے۔ ہم سے تعفن نہیں سہا جاتا۔ ہمارا دم گھٹتا ہے۔  ہمیں ابھی اور جینا ہے۔ زندہ رہنا ہے۔ ہم سے نہ ہو پائے گا۔
 

شیئر: