پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ’پاکستان چین کی دوستی سے پیچھے ہٹے گا نہ ہی کسی کی لڑائی کا حصہ بنے گا۔‘
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سی پیک منصوبے سے فنانسنگ اور انفرا سٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری ملی ہے۔ ان کے بقول سی پیک کا فائدہ صرف چین کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی ہوگا۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’پاکستان کا بیرونی قرضہ اس حد تک بڑھ چکا ہے جو معیشت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ معیشت پر اس بوجھ کا تعلق سی پیک سے نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سی پیک کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی، ملک کے اندر اور ملک کے باہر، امریکہ اس کا حصہ تھا یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق ’ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری آئے، ہم نے سی پیک میں تھرڈ پارٹی انویسٹمنٹ کی بات کی جس پر چین نے اتفاق کیا۔‘
اسد عمر کے مطابق ’سی پیک کے اصل ثمرات تب ملیں گے جب پورے خطے میں امن ہو گا۔ مزید برآں خصوصی اقتصادی زونز سے لاکھوں نوکریاں پیدا ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چین بہت تیزی سے ٹیکنالوجی کی دنیا میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جہاں دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی ہوگی ہمیں اس طرف جانا ہے۔‘
’سی پیک پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا اہم ستون ہے‘
دوسری جانب امریکہ کے سی پیک مخالف بیانات اور ان پر چینی سفیر کے جواب کے بعد پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ’چین کا یہ منصوبہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا اہم ستون ہے۔‘
اس بارے میں انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’پاکستان اور چین کے تعلقات کی بنیاد اسی لیے مضبوط ہے کیونکہ دونوں ممالک نے خطے اور دنیا بھر میں بدلتی صورت حال کے باوجود ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔‘
CPEC is a strategic pillar of Pak's nat security policy - linking it's ext & internal dimensions. Strength of Pak-China r'ship is its stable foundation that has withstood altering internal dynamics + post bipolar global & regional shifts & allowed its incremental scope expansion
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) November 23, 2019
انہوں نے مزید لکھا کہ ’دونوں ممالک کے تعلقات جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی افہام و تفہیم اور ایک دوسرے مفادات کا خیال رکھنے پر منحصر ہیں۔‘
واضح رہے کہ امریکہ کی جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے جمعرات کو کہا تھا کہ ’سی پیک سے صرف چین کو فائدہ ہوگا، اور یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ نے اس سے بہتر ماڈل تجویز کیا تھا۔‘
انہوں نے یہ بات واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں ایک تقریر کے دوران کہا۔
ان کے سی پیک مخالف بیانات کے جواب میں جمعے کو پاکستان میں چینی سفیر یاؤ جنگ نے کہا کہ ’ایلس ویلز کے بیانات ایک طرح کا پروپیگینڈا ہیں۔‘
اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر علی خان سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ ’سی پیک منصوبے پاکستان کے لیے فائدہ مند بھی ہیں اور ان میں کچھ نقصانات بھی ہیں۔‘
’سی پیک منصوبے میں پاکستان کو ایک حد تک نقصانات ہوں گے جیسے کہ مقامی مزدور اس کے مختلف منصوبوں سے شاید اس حد تک مستفید نہ ہوں جس طرح ہونا چاہیے، اسی طرح جو چینی کارخانے پاکستان میں بنیں گے ہمارے مقامی کارخانے ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ان منصوبوں سے پاکستان کو صرف نقصان ہی ہوگا۔ ’ 30 فیصد فائدہ ہمیں ہوگا اور 70 فیصد فائدہ چین کو ہوگا۔‘
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سی پیک منصوبوں سے جو روزگار کے مواقعے مل سکتے تھے پاکستان نے اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔
اس منصوبے میں جو زیادہ تنخواہوں والے عہدے ہیں، بڑے عہدے ہیں اس پر پاکستانی نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس میں چین کا تو کوئی قصور نہیں۔ جب چین کے ساتھ معاہد ے ہو رہے تھے تو اس وقت اگر پاکستان کوئی بھی جائز مطالبہ رکھتا تو چین نے اسے تسلیم کرنا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ گوادر سی پیک منصوبے کا تاج کہلاتا ہے لیکن گوادر میں بجلی کے منصوبے کا افتتاح رواں ماہ ہوا ہے، وہاں پانی کے پلانٹ پر ابھی پیش رفت ہو رہی ہے تو جہاں بجلی نہیں ہوگی وہاں فیکٹریاں کیسے کام کریں گی۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین پاکستان سے سرمایہ کاری کے لیے پلان مانگتا ہے جو پلان آپ دیں گے چین نے اس پر سرمایہ کاری کرنی ہے۔‘
امتیاز گل کے مطابق ’پاکستان کے بیرونی قرضوں میں سے صرف آٹھ ارب ڈالر ہی چین کو واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ تو باقی سارے قرضے پاکستان نے آئی ایم ایف یا دیگر مغربی ذرائع سے حاصل کیے ہیں۔‘
امریکہ کا بیان دونوں ممالک کے تعلقات پر کتنا اثر انداز ہوگا؟
سابق سفیر ایاز وزیر نے ایلس ویلز کے بیان کو امریکہ کا بیانیہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ سی پیک سے خوش نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس سے اگر باہر نہ نکلے تو کم سے کم اس کی رفتار آہستہ کر لے اور اس مرحلے تک پہنچ جائے جہاں پاکستان واپس امریکہ کی طرف لوٹ جائے۔‘
سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ ’امریکہ اور انڈیا نہیں چاہتے کہ ’چین کو گوادر تک رسائی حاصل ہو اس لیے انڈیا اور امریکہ سٹریٹجک پارٹنر بھی ہیں، لیکن ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ناپ تول کر آگے بڑھے ہیں۔‘
امتیاز گل نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک امریکی مفاد میں نہیں لیکن پاکستان نے اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ اور پاکستان کے ذاتی تعلقات ہیں اس کو بھی ہم نے چلانا ہے۔ امریکہ شاید پاکستان کی وجہ سے کھل کر سی پیک کی اس طرح مخالفت نہیں کرے گا۔ اب امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ہے اور اس میں امریکہ اپنی کوشش کرے گا لیکن اس میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس حد تک اثر انداز نہیں ہوں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
’سی پیک کی رفتار میں کمی نہیں آئی‘Node ID: 437301
-
’سی پیک کے لیے چینیوں پر انحصار کم کریں‘Node ID: 437506
-
سی پیک کی رفتار تیز کرنا ترجیح، اسد عمرNode ID: 444141
دوسری جانب پاکستان میں چین کے سابق ڈپٹی سفیر لی جیان ژاؤ نے بھی امریکی نائب سیکرٹری ایلس ویلز کے بیان کے ردعمل میں ٹویٹ کی ہے۔
انہوں نے پاکستان میں چینی سفیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر الزامات نے اس پروجیکٹ سے متعلق ان کی لاعلمی کو ظاہر کیا ہے۔‘
Chinese Ambassador Yao Jing: Ms. Alice Wells' smear on CPEC exposed her ignorance. If US is really concerned about lack of electricity in Pakistan, why didn't US companies come to build power stations before 2014? @CathayPak @CPEC_Official @POWERCHINA_ @HuanengO @ChinaPowerHub https://t.co/z1axwiCQiN
— Lijian Zhao 赵立坚 (@zlj517) November 23, 2019
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اگر واقعی امریکہ کو پاکستان میں بجلی کی کمی سے متعلق تشویش ہے تو امریکی کمپنیوں نے 2014 سے قبل بجلی گھر کیوں نہیں بنائے؟‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں