Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعا منگی کی بازیابی اور پولیس کے شکوے

پولیس ترجمان قمر زیب تقی کے مطابق دعا کی بازیابی کسی پولیس کارروائی کے نتیجے میں نہیں ہوئی (فوٹو: سوشل میڈیا)
کراچی پولیس 30 نومبر کو اغوا ہونے والی دعا منگی کے اغواکاروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے اور الٹا یہ شکوہ کر رہی ہے کہ مغوی کے اہل خانہ نے ان سے تعاون نہیں کیا اور اغواکاروں کے ساتھ رابطے میں رہے۔
دعا منگی کراچی کے علاقے ڈیفینس سے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب مبینہ طور پر تاوان کی ادائیگی کے بعد گھر واپس پہنچ گئی تھیں۔
دعا منگی کا اغوا اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، رواں سال مئی میں بسمہ سلیم کو ڈیفینس کے ایک ریستوران سے واپسی پر مسلح افراد نے اغوا کیا تھا، بعد میں تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد بسمہ کی واپسی ممکن ہوئی تھی۔ اغوا برائے تاوان کے ان واقعات کے بعد پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
کراچی پولیس ترجمان قمر زیب تقی کے مطابق دعا کی بازیابی کسی پولیس کارروائی کے نتیجے میں نہیں ہوئی بلکہ وہ خود ہی گھر واپس آئی ہیں۔
30 نومبر کو ڈیفینس کے علاقے خیابان بخاری میں دعا اپنے دوست حارث کے ساتھ ایک ریستوران کے قریب چہل قدمی کر رہی تھیں جب چار مسلح افراد نے انہیں اغوا کیا۔ مزاحمت پر اغوا کاروں نے حارث پر گولی چلائی جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور اس وقت نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حارث پر چلائی گئی گولی کے خول جمعرات کو عزیز بھٹی تھانے کی حدود میں ہونے والے پولیس مقابلے کے دوران ملنے والے خول سے مشابہت رکھتے ہیں۔
تھانہ عزیز بھٹی کے ایس ایچ او عدیل افضل کے مطابق جمعرات کی رات نیپا ٹریفک سیکشن کے قریب ایک مشتبہ گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا گیا، گاڑی نہ رکنے پر پولیس نے مقابلہ کیا تاہم کار سوار فرار ہو گئے۔
پولیس حکام نے اس حوالے سے مؤقف اپنایا ہے کہ اس کار میں سوار افراد مبینہ طور پر دعا کے اغوا کار تھے جو تاوان کی رقم کی وصولی کے لیے آئے تھے، تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ دعا منگی کے اہلِ خانہ کی جانب سے پولیس سے تعاون نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اغوا کاروں کو نہیں پکڑا جا سکا۔

پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی نے مزید بتایا کہ دعا منگی ابھی تک اپنا بیان ریکارڈ کروانے نہیں آئیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

جمعرات کو میڈیا پر خبر نشر ہوئی تھی کہ اغوا کاروں کی جانب سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن دعا کے ماموں نسیم منگی نے اس حوالے سے تمام خبروں کی تردید کی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسی دن دعا کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کی کال دی گئی، تاہم تاوان کے مطالبے کی خبروں کے بعد یہ احتجاج نہیں ہوسکا۔
دعا کی واپسی کے بعد ہفتے کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اہلِ خانہ نے مؤقف اپنایا کہ دعا کی بازیابی کے لیے تاوان کی رقم ادا نہیں کی گئی، تاہم ڈی آئی جی ساؤتھ شرجیل کھرل کی سربراہی میں قائم پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران کا کہنا ہے کہ 15 سے 20 لاکھ کے قریب تاوان کی رقم ادا کی گئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جمعرات کو عزیز بھٹی پولیس سے ہونے والا مبینہ پولیس مقابلہ جس مقام پر ہوا وہ اس جگہ سے محض چند سو میٹر دور ہے جہاں پر مئی میں اغوا ہونے والی بسمہ کے اغوا کاروں کو رقم کی ادائیگی کی گئی تھی۔
پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی نے مزید بتایا کہ دعا منگی کو اتوار کے روز باضابطہ بیان ریکارڈ کروانے کے لیے بلایا گیا تھا تاہم ابھی تک وہ بیان ریکارڈ کروانے نہیں آئیں۔

دعا منگی مبینہ طور پر تاوان کی ادائیگی کے بعد گھر واپس پہنچیں تھیں (فوٹو:ٹوئٹر)

مئی میں بسمہ اغوا کیس میں پولیس  نے کہا تھا کہ اغوا کار لڑکی کے اہلِ خانہ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہے تھے، اس مرتبہ بھی کم وبیش ایسا ہی ہوا اور اغوا کاروں نے واٹس ایپ کے ذریعے دعا کے اہل خانہ سے رابطہ رکھا۔
ڈی آئی جی شرجیل کھرل کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور اس حوالے سے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر کے تفتیش کی جا رہی ہے، جبکہ واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی کا بھی سراغ لگا لیا گیا ہے۔ گاڑی فیروز آباد تھانے کی حدود سے چوری ہوئی تھی اور واردات کے وقت اس پر جعلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔
کراچی میں گذشتہ برس سے اغوا برائے تاوان کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ پولیس کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق 2018 میں سندھ میں اس نوعیت کے 38 واقعات پیش آئے جن میں سے بیشتر کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔
سی پی ایل سی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کراچی میں ہر ماہ تین سے چار افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا جن میں اکثریت تاجروں اور کاروباری افراد کی تھی جبکہ اتنے ہی افراد سے بھتہ وصولی بھی کی گئی۔

شیئر: