ٹیسٹ میچ میں بارش کے علاوہ وہ سب کچھ تھا جو پاکستانیوں کو یاد رہے گا (فوٹو:پی سی بی)
میں نے جو آخری ٹیسٹ میچ دیکھا تھا، وہ سری لنکا کے خلاف نہیں تھا۔ مجھے ٹیم بھی نہیں یاد۔ بس ایک بات یاد ہے کہ جب ہمارے کسی بیٹسمین نے چھکا مارا تھا، تو میں نے وی آئی پی میں کھڑے ہو کر ’آآآآآبکری‘ کا نعرہ لگایا تھا۔
اس کے بعد میرے مرحوم والد نے مجھ پر سٹیڈیم میں میچ دیکھنے پر پابندی لگا دی اور پھر پاکستان میں ہی کرکٹ پر پابندی لگ گئی۔ اس پابندی کے بعد اپنی ٹیم کو دبئی کی اذیت ناک گرمی میں ہی کھیلتے دیکھا۔
دبئی اس پاکستانی لڑکے کی طرح ہمارا زبردست ہوم گراؤنڈ بن گیا جو آپ کو کہے بغیر آپ کی رکھوالی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی نہیں لگتا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر کوئی میچ ہوگا لیکن آخر کار ہو گیا۔
سری لنکا نے ٹیسٹ کرکٹ کی ہامی بھر لی اور میرے کپتان عمران خان کو خوش کرنے کے لیے وہ ’ریلو کٹے‘ بھی نہیں لے کر آئے۔
پاکستان میں صرف ٹیسٹ کرکٹ کی ہی واپسی نہیں ہوئی بلکہ فواد عالم کی بھی واپسی ہوئی۔ فواد عالم خاندان کی وہ زمین ہیں جس کا کیس اگلی سات نسلوں تک چلتا رہتا ہے لیکن وہ زمین کسی کو ملتی نہیں۔
فواد عالم وہ ناکام محبت ہے، جو ہمیشہ یاد تو کی جاتی ہے لیکن اس میں عاشق سسکتے اور تڑپتے ہی رہتے ہیں۔
فواد عالم وہ بی آر ٹی ہیں جس نے کبھی پورا نہیں ہونا لیکن تکلیف کا باعث ضرور ہے۔ بے شک اس بار انھیں سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے لیکن انھیں پہلے ٹیسٹ میں نہیں کھلایا گیا۔
غصـہ آیا، برا بھلا بھی کہا لیکن تشنگی ایسی ہے کہ چلو کوئی نہیں، اگلے میچ میں دیکھتے ہیں۔
راولپنڈی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں بارش کے علاوہ وہ سب کچھ تھا جو سب پاکستانیوں کو یاد رہے گا۔
پنڈی نے جس طرح کرکٹ کا استقبال کیا ہے اس طرح تو میری ماں نے بھی میرا ماسٹرز کرنے پر نہیں کیا تھا۔ جہاں تک ٹیم کی بات ہے تو جو کچھ آسٹریلیا میں ہوا تھا، وہ ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے میچ شروع ہونے سے دو گھنٹے بعد کا الارم لگایا تھا۔
خیال یہی تھا کہ تب تک ٹیم کی نیت کا پتا چل جائے گی لیکن ٹیم نے نہ صرف وکٹیں حاصل کیں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی پر، یارکر کی بھی واپسی ہو گئی۔
محمد عباس نے جس طرح سے وکٹ لی، جو بال کروائی، اس کو دیکھ کر احساس ہوا کہ نہیں بھائی! کرکٹ واقعی واپس آگئی ہے۔
میچ کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے روز بھی بارش اور کبھی خراب روشنی کے باعث کھیل رکتا رہا لیکن جو چیز نہ رکی وہ تھے کرکٹ کے شائقین۔
کیا سکول کے بچے اور کیا منچلے نوجوان، سب سٹیڈیم میں ایسے بیٹھے تھے جیسے 2014 کے دھرنے میں لوگ بیٹھے تھے۔
تماشائیوں کو معلوم تھا کہ کچھ نہیں ہونا۔ جیسے دھرنے والوں کو بھی پتا تھا کہ کچھ نہیں ہونا لیکن دونوں اپنے اپنے عشق میں مگن تھے۔
اور پھر آیا پانچواں دن۔ سورج اپنی چھٹی ملتوی کر کے آیا اور کھیل شروع ہوا اور پھر وہ ہوا جو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ عابد علی اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے، انہوں نے آہستہ آہستہ گیم بنائی اور سینچری کر گئے۔
اس سنچری کے بعد وہ دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کے ڈیبیو میچ میں سینچریاں بنائیں۔
عابد علی کے کھیلنے کا انداز ایسا تھا جس سے پتا لگ رہا تھا کہ کتنی حسرت ہے کچھ کر دکھانے کی۔ جیسے وہ رنز بنا رہے تھے، اس شوق سے میں صرف کے ایف سی کھاتی ہوں
اور سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ عابد علی نے اپنی سینچری اپنی بیٹی کے نام کر دی۔ عابد علی یو بیوٹی!
اور اب آ جائیں اس شخص پر جو مغلیہ سلطنت کا اب تک کا بہترین بادشاہ رہا ہے۔ جی ہاں شہنشاہ اکبر سینیئر ترین، بابر اعظم جنہیں پرنس بوبی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اظہر علی کے آؤٹ ہونے کے بعد آئے اور خاموشی سے ایک نکڑ پر کھڑے رہ کر سینچری کر گئے۔
ان کی سینچری کا اسی طرح پتا نہیں چلا جیسے حکومتِ وقت کی پرفارمنس کا پتا نہیں چلتا۔ وہ برفیلا چہرہ، وہ بے نیازی۔ ان کی کور ڈرائیو شاٹ نہیں، ایک مجموعہ کلام ہے جسے جتنا پڑھو، اتنا ہی سکون ملتا ہے۔
میچ کے بالکل آخری اوورز میں بابر اعظم نے اپنی سینچری مکمل کی اور یوں میچ تمام ہوا۔ دونوں ٹیموں کو 20 پوائنٹ ملے تاکہ اور کچھ نہیں تو رینکنگ تو بہتر ہو۔
مجھے نہیں یاد پڑتا میں نے اتنی بہترین اتوار پچھلے چند سالوں میں گزاری ہو۔ سٹیڈیم میں لوگوں کا رش، ’ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار‘ گانا، اور خوشی سے دمکتے چہرے۔ میچ کے ختم ہونے پر لوگوں کی خوشی دیکھ کر ایسا لگا جیسے نئے دلہا دلہن ابھی ’قبول ہے قبول ہے قبول‘ کہہ کر آ رہے ہوں۔
ٹیسٹ میچ کی واپسی اتنی خوب صورت ہوئی ہے کہ دل سے بے اختیار نکلا
کس طرح چھوڑ دوں تمہیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں