ایک پاکستان پیپلز پارٹی وہ تھی جس نے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں عام لوگوں کو متحرک کیا اور لاکھوں کے مجمعے لگائے۔ بھٹو کو پھانسی لگنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو نے سنبھالی۔ ان کی رہنمائی میں جنرل ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلائی گئی اور ہزاروں افراد پر مشتمل کئی میلوں تک ریلیاں نکالی گئیں۔
پارٹی کا تیسرا دور آصف علی زرداری کی زیر قیادت رہا جس میں مفاہمت اور جوڑ توڑ کی سیاست متعارف ہوئی۔ اب چوتھا دور بلاول بھٹو زرداری کا چل رہا ہے۔
بے نظیر بھٹو ذہین اور پرکشش سیاسی رہنما اور ذات میں سراپا مزاحمت تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی موت ذوالفقارعلی بھٹو کی موت سے کم نہ تھی۔ وہ عوامی اور مقبول سیاستدان تھیں، پارٹی میں کارکنوں کی سنی جاتی تھی۔ اراکین اسمبلی یہاں تک کہ ’وزرا کارکنوں سے ڈرتے تھے کہ کہیں بی بی کو شکایت نہ کر دیں۔‘
مزید پڑھیں
-
بھٹو پر قتل کا دوسرا مقدمہNode ID: 436876
-
بے نظیر کن شرائط پر وزیراعظم بنیں؟Node ID: 443566
-
مشرف ایمرجنسی کی کتھاNode ID: 448396
مشرف دورمیں لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں تو پارٹی کی قیادت بظاہر ان کے بیٹے بلاول بھٹو کو سونپ دی گئی۔ بلاول کم عمر تھے اور ابھی برطانیہ میں زیر تعلیم تھے لہٰذا عملی طور پر آصف علی زرادری پیپلزپارٹی کے سپریمو بن گئے۔
سنہ 2008 میں بے نظیر کے بغیر ہونے والے پہلے انتخابات ہوئے تو پاکستان کے لوگوں نے بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو ہمدردی کا ووٹ دیا اور پارٹی نے مرکز اور دو صوبوں میں حکومت بنالی۔
کچھ کامیابیاں کچھ الزامات
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پارٹی نے حکومت میں آئینی مدت مکمل کی جسے زرداری کی مفاہمت کا نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔ یہ تمام مدت پارٹی عدلیہ کے سخت دباؤ میں رہی۔ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کے باوجود سوئس کیس میں پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کر دیا گیا۔ دوسرے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو رینٹل پاور سکینڈل میں گھیر لیا گیا۔ میمو گیٹ سکینڈل بھی سامنے آیا۔ پارٹی اور حکومت کا زیادہ تر وقت اپنا دفاع کرتے ہوئے گزرا۔
پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت کے بعض کارنامے بھی ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کر کے صدر کے اختیارات کم کیے اور صوبوں کے اختیارات بڑھائے گئے۔
صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھا۔ بلوچستان کا قومی مالیاتی ایوارڈ میں حصہ بڑھایا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے وفاق سے براہ راست غریب لوگوں کو رقومات کی منتقلی کی۔ فہمیدہ مرزا پہلی خاتون سپیکر اور شیری رحمان سینیٹ میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر بنیں۔
پارٹی نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کر کے مشرف کو مواخذے سے ڈرایا تو انہوں راہ فرار اختیار کی۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کسی پرکشش رہنما کی عدم موجودگی میں عمران خان کو موقع ملا۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی مرکز میں ہار گئی اور ایک صوبے تک محدود ہو گئی۔ پنجاب میں شاہ محمود قریشی، سردار آصف احمد علی اور دیگر نصف درجن بااثرشخصیات نے پارٹی سے علیٰحدگی اختیار کرلی۔
پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت پر پارٹی پر کرپشن اور خراب حکمرانی کے دھبے لگے۔ بلاول کی مشکل یہ تھی کہ وہ والد کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کو بحال کر سکے۔
زرداری کا سیاسی ماڈل
آصف علی زرداری عوامی رہنما تو تھے نہیں، لہٰذا انہوں نے سیاست کا نیا ماڈل متعارف کرایا۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ماڈل سے مختلف تھا جو کہ عوامی سپورٹ پر یقین رکھتے تھے۔
پیپلز پارٹی کے ایک قریبی ذریعے کا کہنا ہے کہ زرداری نے نوے کے عشرے کی سیاست سے سیکھا کہ اقتدار کے لیے جوڑ توڑ ضروری ہے۔
بے نظیر بھٹو کو عوامی حمایت ہمیشہ حاصل رہی لیکن لابنگ اور جوڑ توڑ کی وجہ سے انہیں حکومت سے آؤٹ کیا جاتا رہا۔ زرداری نے سیاست کے نئے فن میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ وہ جوڑ توڑ کے بادشاہ کہلانے لگے۔
پارٹی کو بھی نئے سیاسی ماڈل پر استوار کیا گیا۔ پارٹی کے کارکنوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ روٹی کپڑا اور مکان کو بھول جاؤ، نظام سے فائدہ اٹھاؤ۔ اپنا ایک حلقہ اثر بناؤ جو انتخابات کے میکنزم کو سمجھتا ہو اور الیکشن والے دن پولنگ سٹیشن کو سنبھال سکے۔ اس کے نتیجے میں پارٹی کے اندر نظریاتی یا جیالے کارکنوں کی جگہ مفاد پرستوں کی ایک کلاس کھڑی کر دی گئی جس پر پرانے جیالے کہنے لگے کہ پیپلز پارٹی بے نظیر کی موت کے بعد یتیم ہوگئی۔
پنجاب راضی نہیں
آصف علی زرداری کے مقامی انتظامات اور قابل عمل فارمولے سے پارٹی کو سندھ میں تو کامیابی ملی لیکن پنجاب میں یہ نسخہ نہیں چل پایا، لہٰذا پیپلز پارٹی پنجاب کے شہری، وسطی اور شمالی علاقوں میں صاف ہوگئی۔
صرف ایک حد تک جنوبی پنجاب میں وجود برقرار رکھ پائی۔ صورت حال یہ بنی کہ 2013 میں سندھ سے 65 نشستیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بالترتیب چھ اور تین نشستیں حاصل کیں، حالانکہ 2008 میں اس نے 97 نشستیں لی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلینج پنجاب میں واپس پاؤں جمانا تھا۔ وہ پارٹی جس نے 1988 کے انتخابات میں کلین سویپ کیا تھا آج اتنی سکڑ گئی ہے کہ پنجاب میں بمشکل تیسری قوت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پنجاب آصف علی زرداری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بلاول بھٹو کو وطن واپسی کے بعد پنجاب میں رکھا گیا۔ وہاں گھر لے کر دیا گیا۔ اعتزازاحسن اور دیگر کے کہنے پر پارٹی نے عمل کیا لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ پنجاب اپنا رخ تبدیل کر چکا تھا۔
بلاشبہ پارٹی کے ساتھ یکساں سلوک نہ ہونا اور دھاندلی بھی وجوہات رہیں، لیکن مکمل صفایا کے لیے یہ جواز ناکافی ہیں۔ کسی طرح سے اس بیانیے نے جگہ بنا لی کہ ’پارٹی کرپٹ ہے اور اس نے عام لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا‘ اس کے مقابلے میں شہباز شریف نے کہا ’کام کو عزت دو‘
سندھ روایتی قلعہ برقرار
سنہ 2018 کے انتخابات میں پارٹی قومی سطح پر تیسرے نمبر پر چلی گئی اورعملاً سندھ تک محدود ہو گئی ہے، جو پارٹی کا روایتی قلعہ رہا ہے لیکن یہاں بھی شہری علاقوں میں وہ جگہ نہ بنا پائی جو بھٹو کے زمانے میں تھی۔
گذشتہ سال پارٹی نے بلوچستان میں زہری حکومت کو توڑنے اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
سندھ تک محدود ہونے کے بعد پارٹی کے لیے سندھ حکومت اہم ہوگئی ہے۔ گذشتہ چار سال سے پارٹی کی سندھ حکومت وفاق سے محاذ آرائی میں ہے۔ پارٹی کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت پر بھی عدالتی دباؤ ابھی تک چل رہا ہے۔
جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے کیس نے پارٹی قیادت بلکہ پارٹی کی سندھ میں حکومت کو چیلنج میں ڈال دیا ہے۔ وہ احتساب کے عمل کو یک طرفہ کہتے ہیں۔ اب وہ پنجاب میں پارٹی بحال کریں یا سندھ میں پارٹی قیادت پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کا دفاع کریں۔
آج اور بلاول بھٹو
آج بھی پیپلز پارٹی واحد پارٹی ہے جو نظری اعتبار سے جمہوری آزادیوں، وفاقیت، تمام شہریوں کی برابری، صوبوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے، لیکن اب بھی پارٹی کارکنوں کے اجلاس بلاول ہاؤس میں ہوتے ہیں جہاں کارکن چل کر آتے ہیں۔
آصف زرداری کی گرفتاری، بیماری اور سینیئر سیاستدانوں کو مائنس کرنے کے فارمولے کے ’نفاذ‘ کے بعد پارٹی کی قیادت اب بلاول بھٹو کے پاس ہے، لیکن اب انہیں بھی نیب نے بلا رکھا ہے۔
-
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں