Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی پر بینڈ باجا یا ڈی جے ؟

ویسے تو پاکستان میں شادیاں سارا سال ہوتی رہتی ہیں، لیکن موسم سرما اب یہاں کا ’آفیشل شادی سیزن‘ بنتا جا رہا ہے۔
ستمبر کے پہلے ہفتے سے شادی کی تقریبات کا آہستہ آہستہ آغاز ہوتا ہے جو دسمبر اور جنوری میں عروج پر پہنچ جاتا ہے اور پھر اپریل تک جاری رہتا ہے۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ ان شادیوں پر ہونے والی بنیادی رسومات تو وہی ہیں جو صدیوں سے چلی آرہی ہیں، لیکن ان رسومات کو ادا کرنے کے طریقہ کار میں ایک ارتقائی عمل جاری ہے، اور ہر تھوڑے عرصے بعد اس میں نیا رنگ آتا ہے۔

 

مہندی یا مایوں کی رسم کو ہی لے لیجئے۔ آج سے ایک دہائی قبل یہ رسم شادی سے ایک رات قبل کچھ ایسے رکھی جاتی تھی کہ دلہا اور دلہن کو ہاتھوں پر مہندی لگانے کے لیے ان کے قریبی رشتہ دار اور دوست روایتی گانوں پر رقص کرتے ہوئے یہ رسم ادا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ عمل ڈی جے کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

مہندی اور ڈی جے

ویسے تو مہندی کی رسم پر ڈی جے اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی اکا دکا نظر آنا شروع ہو گئے تھے، تاہم 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد اس نے باقاعدہ رواج کی شکل اختیار کر لی اور اب مہندی کی تقریبات کا حلیہ مکمل بدل چکا ہے۔
پاکستان میں شادیوں کی تقریبات میں اولین ڈی جے سروسز فراہم کرنے والوں میں سے ایک، ڈی جے بٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 2000 میں کسی اچھے ساؤنڈ سسٹم پر گانے بجانے کو ہی بہترین تقریب سمجھا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس تقریب کی رنگینیوں اور جدت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔
’اب 2019 میں صورت حال بہت بدل چکی ہے۔ اب تو شادی کی تقریبات شروع ہونے سے پہلے دلہا اور دلہن کی فیملی کے ساتھ مل کر گانے پسند کیے جاتے ہیں جن پر دونوں اطراف کے فیملی ممبران رقص کی ریہرسل شروع کر دیتے ہیں، بلکہ اب تو اس کے لیے کوریو گرافرز کی خدمات بھی لی جاتی ہیں اور ایک ایک سٹیپ ڈی جے کی مکس کردہ دھنوں پر تیار کیا جاتا ہے۔‘

’موسم سرما اب  یہاں کا ’آفیشل شادی سیزن‘ بنتا جا رہا ہے‘  فوٹو:اے ایف پی

ڈی جے بٹ نے بتایا کہ اب تین سے چار گھنٹے کی مہندی کی تقریب میں صرف وہی گانے نہیں بجائے جاتے جن پر مخصوص رقص کیے جاتے ہیں بلکہ اب تو ایسی تقاریب کے باقاعدہ حصے ہوتے ہیں۔
 بہت ساری چیزوں کا انحصار تو صرف ڈی جے پر ہی ہوتا ہے۔ مثلا تقریب میں ادھیڑ عمر اور بڑی عمر کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو زیادہ جدید اور شوخ گانے پسند نہیں کرتے۔ ان کے لیے وقفے وقفے سے پرانی طرز کے گانے ریمکس کی شکل میں پیش کیے جاتے ہیں جس سے عمر رسیدہ افراد بھی جھوم اٹھتے ہیں۔
 ہر سال مہندی کی تقریب کے لیے کوئی نہ کوئی نیا ٹرینڈ آتا ہے جیسا کہ آج کل بڑی شادیوں کی مہندی میں نوجوان خواتین ڈھولچیوں کا ایک سیگمنٹ ضرور رکھا جاتا ہے۔

2019  میں کون سے گانے زیادہ ان ہیں؟

شادی بیاہ پر گائے اور بجائے جانے والے گانوں کی بھی ہر سال ایک خاص ہوا چلتی ہے جو ہر تقریب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ڈی جے بٹ کا کہنا ہے کہ 2019  کی شادیوں میں پاکستانی گانے انڈین موسیقی کو پیچھے چھوڑتے نظر آئے۔
’اگر آپ فہرست کے ٹاپ سے شروع کریں تو ساحر علی بگا پہلے نمبر پرہیں ان کے گائے ہوئے گانوں کے بغیر تقریبات نا مکمل ہیں۔ اسی طرح اسرار کا گانا شکر ونڈاں بھی آجکل ٹرینڈ میں ہے۔ ملکو کے بھنگڑا گانے جبکہ مظہر راہی کے بھی گانے آجکل کی تقریبات میں بہت ہٹ ہیں اور لوگ خود فرمائش کرتے ہیں۔‘

 ہر سال مہندی کی تقریب کے لیے کوئی نہ کوئی نیا ٹرینڈ آتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کیا ڈی جے نے بینڈ کا باجا بجا دیا ؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبھی تو شادی کی تقریبات میں بینڈ باجے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی، اور اس کا تعلق بارات کی تقریب سے ہوتا تھا۔ لیکن کلچر کے اس ارتقائی عمل میں خاصی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوئی ہیں مثلا لاہور جیسے بڑے شہروں میں لوگ اب زیادہ تقریبات نہیں رکھتے انٹرٹینمنٹ کی مرکزی تقریب مہندی کے نام پر سج جاتی ہے جبکہ ولیمہ یا بارات کو اکھٹا کر کے ریسیپشن کا نام دے دیا گیا ہے۔
 یوں بارات کے کے لیے لازم و ملزوم سمجھے جانے والے بینڈ باجے کی اپنی بینڈ بھی بج چکی ہے۔
لاہور کے ایک مشہور ہوٹل فلیٹیز کے جنرل مینیجر ارشاد بی انجم، جن کے شادی ہالز میں روزانہ چار سے پانچ شادیوں کی تقریبات ہوتی ہیں، کے مطابق انہیں یاد ہی نہیں ہے کہ انہوں نے آخری بار کب شادی کی کسی تقریب میں بینڈ باجا دیکھا تھا۔
لاہور کے علاقے دہلی گیٹ میں واقع سخاوت پرائیوٹ فوجی بینڈ کے سربراہ سخاوت علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ شہر میں بڑے اور امیر لوگوں کی شادیوں میں بینڈ باجے کا کام کافی کم ہو گیا ہے۔ البتہ شہر کے مضافات میں جہاں ابھی لوگ ڈی جے وغیرہ افورڈ نہیں کر سکتے یا کلچر کی وجہ سے مخلوط مہندی نہیں رکھتے جہاں گانا بجانا ہو تو وہاں ابھی بھی بینڈز کو شادیوں کا حصہ بناتے ہیں۔

 بارات کے کے لئے لازم و ملزوم سمجھے جانے والے بینڈ باجے کی اپنی بینڈ بھی بج چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ماسٹر اکرم گذشتہ 30 سال سے کراچی میں اس فن سے منسلک ہیں اور وہ اپنے بینڈ کا تعارف پائپ بینڈ کے نام سے کرواتے ہیں۔ ماسٹر اکرم کے بینڈ میں ان سمیت 9 لوگ ہیں۔
ماسٹر اکرم کے نائب عمران نے اردو نیوز کے کراچی میں نمائندے توصیف رضی ملک کو بتایا کہ اب  شادیوں پر کم لوگ بینڈ والوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔
’روائتی بینڈز ہماری شہری ثقافت کا حصہ ہے، خاندانی لوگ آج بھی ہمیں عزت دیتے ہیں لیکن نئی نسل ہمارے فن سے کم واقف ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ویسے تو ان کی دھنیں مخصوص ہوتی ہیں، جیسے ’شادمانی ہو شادمانی‘ اور ’دولہے کا سہرا‘، لیکن کبھی کبھار لوگ کچھ مخصوص گانوں کی پیشگی فرمائش کر دیتے ہیں۔
ایسی صورت میں ماسٹر اکرم اور ان کی ٹیم کو اضافی مشق کرنا پڑتی ہے نئی دھن سیکھنے کے لیے، جس کے وہ اضافی پیسے لیتے ہیں۔

شیئر: