نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی نئے سال کے عزائم پر تشویش شروع ہو جاتی ہے۔
نئے سال کا آغاز موقع ہوتا ہے کہ انسان ایک مرتبہ پھر سے اپنے تشخص کا جائزہ لے اور آنے والے سال میں اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لا کر نئے سال کو اپنے اور دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنائے۔
یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر کوئی نئے سال کے موقع پر اپنے نئے ارادوں کی تشکیل میں مصروف نظر آتا ہے۔
ہر شخص اپنے پچھلے سال کی ناکامیوں یا خود کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے نئے عزم کا سہارا لیتا ہے۔
کوئی کھانے پر قابو رکھے بغیر ہی وزن کم کرنا چاہتا ہے، تو کسی کو آئیڈیل محبت ملنے کی امید ہوتی ہے۔ کچھ خود سے اتنا مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کو نئے عزم کا سہارا لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، یا پھر وہ اتنا ناامید ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کے خیال میں کسی قسم کا عہد یا اراداہ زندگی میں من پسند تبدیلی نہیں لا سکتا۔
اکثر نامور شخصیات اپنے نئے سال کے عزائم اس غرض سے بھی شیئر کرتے ہیں کہ ان کے فالوورز کا آئندہ سال مزید بہتر طریقے سے گزارنے کا حوصلہ بڑھے۔
اردو نیوز نے سال 2020 سے متعلق لوگوں کے ارادے جاننے کے لیے مختلف شعبوں سے منسلک نوجوانوں سے گفتگو کی اور ان سے پوچھا کہ وہ نئے سال میں کیا کرنے والے ہیں۔
ملکہ نور 2014 سے خواتین کی فٹبال ٹیم کی نائب کپتان ہیں اور حال ہی میں ان کی ٹیم نے نیشنل گیمز میں سلور میڈل جیتا ہے۔
ملکہ نے اردو نیوز کو اپنے نئے سال کے عہد کے بارے میں بتایا کہ وہ نوجوان لڑکیوں کو یہ باور کروانا چاہتی ہیں کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنے خواب پورے کر سکتی ہیں۔
ملکہ نے اپنے بیٹے کی نومبر 2018 میں پیدائش کے ٹھیک ایک سال بعد نہ صرف نیشنل گیمز میں حصہ لیا بلکہ بہترین کارکردگی سے اپنی ٹیم کو سلور میڈل بھی جتوایا۔
بچے کی پیدائش کے فوراً بعد خود کو جسمانی طور پر فٹ بنانا اور فیملی اور کھیل کے درمیان توازن رکھنا ان کے لیے یقیناً ایک بڑا چیلنج تھا۔ بچے کی پیدائش کے بعد ملکہ کو کافی مایوس کن تاثرات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
’لوگ کہتے تھے کہ کچھ عرصے تک میں فٹبال نہیں کھیل سکوں گی۔ لیکن میں نے کر کے دکھایا، اور میں یہ سوچ تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔‘
’ مجھے صرف خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، معاشرے کی سوچ خود ہی تبدیل ہو جائے گی۔‘
جنوری 2020 میں ملکہ اپنی ٹیم کی نمائندگی قومی چیمپئین شپ میں کریں گی۔ وہ کامیاب ہو کردوسری لڑکیوں کی ہمت بندھانا چاہتی ہیں۔
ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی نوجوان گلوکارہ مہک علی کے لیے 2019 بہت ہی بہترین سال تھا۔ چھ سال کی محنت کے بعد بالآخر ان کی بھاری آواز کی خوبصورتی کو سراہا گیا۔
’مجھے میری آواز پر بے حد تنقید سننا پڑی کہ مردانہ اور موٹی آواز ہے۔‘
لیکن اس سال فلم ’جوانی پھر نہیں آنی‘ کے لیے ان کا گانا ’لہور تیرے تہ مردا‘ سات ایوارڈز کے لیے نامزد ہوا ہے۔ اب جب کہ مہک علی نے اپنے ٹیلنٹ کو منوا لیا ہے تو وہ 2020 میں اپنی پسند کا کام کرنا چاہتی ہیں جو ان کی شخصیت کے قریب ہو۔
’میں فوک اور صوفی روک سنگر ہوں۔ اور آئندہ سال بابا بلھے شاہ اور علامہ اقبال کا کلام گانے کا ارادہ ہے، وہ کلام جو عشق اور محبت کا پیغام دے۔‘
مہک نے بتایا کہ وہ ہر تین مہینے بعد اپنا گانا ریلیز کریں گی اور ہر گانے کے لیے وہ مختلف میوزک پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کریں گی، تاکہ کلام کے بول کے مطابق موسیقی ترتیب دی جائے۔
عمر فاروق ایک ابھرتے ہوئے انتہائی خوش مزاج اور پر امید نوجوان فنکار ہیں۔
ان کو ہمیشہ سے شہرت کا شوق تھا اور اپنا یہ مقصد پانے کے لیے انہوں نے اداکاری کا سہارا لیا ہے۔
انہوں نے کافی مقبول ڈراموں میں کام کیا ہے لیکن اب تک انہیں بہت ہی معمولی کردار ملے ہیں جو انہیں شہرت کی ان بلندیوں پر فائز نہیں کر سکے جن کی انہیں خواہش ہے۔
ایم بی اے گریجو ایٹ اور نوکری پیشہ عمر فاروق چاہتے ہیں کہ 2020 میں کوئی ایسا چمتکار ہو جو انہیں ہیرو کا وہ کردار دلوا جائے جو ان کو ’ہمسفر‘ کے ’فواد خان‘ کے برابر لا کر کھڑا کر دے۔
عمر نے ہالی ووڈ کی فلم ’ٹو بیل مین‘ کے علاوہ پاکستانی ڈرامہ ’ادھوری کہانی‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ میں معمولی کردار ادا کیے ہیں۔ اور آج کل وہ مشہور ڈرامہ عہد وفا اور ثبات کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سال 2020 یقیناً ان کے لیے نئی کامیابیاں لائے گا۔
فرانسیسی فوٹوگرافر آغیین زیرہ، جو گذشتہ چند برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے مختلف مقامات کی فوٹوگرافی کر رہی ہیں، اگلے سال بہت ذیادہ سیاحوں کو پاکستان لانا چاہتی ہیں۔
آغیین زیرہ کی تصاویرفرانس کے سیاحتی میگزینز میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی تصویروں کی نمائش ’اسلام آباد آرٹ فیسٹیول‘ میں بھی منعقد کی گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میری تصویریں دیکھ کر فرانس اور دیگر مغربی ممالک کے لوگوں میں پاکستان جانے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور پاکستان کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں بھی دور ہوتی ہیں۔‘
’لیکن لوگوں کو پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ کن مقامات پر جائیں، کہاں رہیں، ٹرانسپورٹ کی کیا سہولت ہے وغیرہ وغیرہ۔‘
آغیین سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے اِن تمام سوالات کے جواب دینا چاہتی ہیں تاکہ ان میں پاکستان جانے کا حوصلہ پیدا ہو۔