زرق برق لباس اور طلائی زیورات پاکستان میں شادی تقریبات کی پہچان ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
آج کل شادیوں کا سیزن ہے۔ دسمبر جنوری میں پاکستان میں جو شادیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ مارچ میں جا کر ہی ذرا دم لیتا ہے۔ جاڑا تو اپنے زوروں پر ہے ہی لیکن شادیوں کے تنبو قناتیں بھی کچھ کم نہیں۔ شام ہوتے ہی زرق برق لباسوں میں ملبوس نازنینیں اپنے باریک آنچل لہراتی، سردی کو خاطر میں نہ لاتی برقی قمقموں سے منور ان تقریبات کا رخ کرتی ہیں۔ کئی سو لوگ جمع ہوتے ہیں کہ نو بیاہتا جوڑے کو اپنی دعاوں سے نوازیں یا یوں کہیے ان کے گھر والوں کو ہزار دو ہزار دے کر وہ سلامی واپس کریں جو کبھی ان کے گھر کی شادیوں میں دی گئی تھی کہ یہ سائیکل چلتا رہے۔
ہماری ہر دلعزیز لکھاری نور الہدی شاہ صاحبہ نے ایک دفعہ ایک کالم میں لکھا تھا کہ وہ جب بھی کسی تصویر کو دیکھتی ہیں تو ان کے سامنے ایک کہانی چلنے لگتی ہے۔ جب سے ان کی یہ تحریر پڑھی ہم بھی اسی عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ ہنستے مسکراتے نو بیاہتا جوڑوں کو دیکھتے ہیں گو ہمارے سامنے ایک فلم سی چلنے لگتی ہے۔ ان کے ماضی کی، ان کے مستقبل کی۔
خیال آتا ہے کہ کیا کیا عہد و پیمان ہوئے ہوں گے۔ لڑکی کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہو گا کہ وہی وہ واحد ذی روح ہے جس سے اس نوجوان کو آج تک محبت ہوئی ہے۔ اس کو بھی فورا یقین آ جاتا ہو گا۔ ہتھیلیوں میں پسینہ آتا ہو گا۔ فورا دلہن بننے کا سپنا آنکھوں میں آ جاتا ہو گا۔ اسے لگتا ہو گا کہ یہی اس کی زندگی کا حاصل ہے۔ اسے اسی شہزادے کی تلاش تھی۔ اس کی خاطر اپنا آپ بدل ڈالنے کا خیال دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہو گا۔ آخر شہزادے کی مرضی میں ڈالنا بھی تو ضروری ہے۔
شہزادہ بھی وہ جس نے اپنے خاندان میں موجود رشتوں کو ٹھکرا کر اس کو چنا کہ اس کی نگاہ اسی پر ٹھہری۔ خاندان کی کوئی لڑکی تو اس کے معیار کی بھی نہ تھی۔
آخر اس کی خاطر کچھ تو کرنا ہو گا نا۔ اس کی مرضی کے سانچے میں خود کو یوں ڈھالنا ہو گا کہ اپنا نام و نشان بھی باقی نہ رپے کہ محبت کا یہی تقاضا ہے۔
شادی کی تقریب تو نظروں کے سامنے ہی ہے۔ لال جوڑے اور طلائی زیورات میں دمکتی دلہن جس کی آنکھیں بھی ایک ان دیکھے مستقبل کی چمک سے خیرہ ہیں۔
ابھی کہانی رکی نہیں۔ جب مہندی کا رنگ اترتا ہے تو محبت کی قلعی بھی کھلنے لگتی ہے۔ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ وعدے وفا ہونے کے لیے تو کبھی نہیں تھے۔ لیکن ہاں، بدلنا مقدر ٹھہرا تھا۔ خدا جانے انسان کا اندر کیسے بدلتا ہے۔ وہ شخص جس سے محبت کی تھی وہ تو کوئی اور تھا۔ خوشبو اتر گئی۔ رنگ مدھم پڑ گیا۔ ہاتھ خالی رہے۔
معاف کیجیے گا شاید جذبات کی رو میں زیادہ بہہ گئے۔ یہ احساس نہیں ہوا کہ کہانی کا انجام خوبصورت بھی تو ہو سکتا تھا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ یہ دلہن وہی خالہ کی بیٹی ہوتی جس کو اس بنیاد پر ٹھکرا دیا گیا تھا کہ وہ شہزادے کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ اس دلہن کو بدلنے کی وہ کوشش نہ کی جاتی جس میں اس کی شخصیت ہی مسخ ہو جاتی۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ شادی ہی اس سے کی جاتی جسے بدلنے کی ضرورت نہ پیش آتی۔
ایک بار پھر معاف کیجیے گا کہ مسئلے کی نشاندہی سے ہٹنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں ہے کہ ہم کسی کو اس کے ظاہر و باطن سمیت قبول نہیں کرتے؟ ہم ہمیشہ اس کوشش میں ہی سرگرداں کیوں رہتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں؟ اگر نوکری کرنے والی لڑکی پسند نہیں تو شادی ہی اس لڑکی سے کیوں نہیں کی جاتی جسے ملازمت سے کوئی رغبت نہ ہو؟ اگر سادہ لڑکیاں پسند ہیں تو ایسی لڑکی کو بدلنے کی کوشش میں مسخ کیوں کیا جائے جسے فیشن سے رغبت ہے؟ اگر خالہ کی بیٹی پسند نہیں ہے تو آنے والی لڑکی کو اسی سانچے میں کیوں ڈھالا جائے؟
یہ رویہ صرف مردوں میں ہی نہیں بلکہ عورتوں میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ شادی کے بعد یہی شکایت ہوتی ہے کہ شوہر پہلے جیسا نہیں رہا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو بدلا ہی نہیں۔ ہاں، بیوی بدل گئی۔ شوہر تو جوں کا توں رہا۔ بس شادی سے پہلے یہی باتیں کھٹکتی نہیں تھیں۔ یہ احساس شادی کے بعد ہوا کہ ان باتوں پر زندگی گزرنے سے رہی۔ کاش کہ ہمیں محبت بھی ان ہی مردوں سے ہو جن میں شوہر بننے کا ظرف ہو۔ کاش کہ ہمارا مردانگی کا معیار انسانیت کے قریب ہو۔
ہم چاہتے ہیں بیویاں بدل جائیں۔ شوہر کی عادتیں بدل جائیں۔ حالانکہ اگر کوئی چیز کسی کام آ سکتی ہے تو وہ اپنی ذات کی تبدیلی ہے۔ کسی بھی شخص کو بدلنے کی کوشش کرنا بنیادی طور پر اس کی شخصیت کا قتل ہے۔ اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہذا مناسب یہی ہو گا کہ ان ہی لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کیا جائے جو ہمیں جیسے ہیں جہاں ہیں کی بنیاد پر قبول ہوں۔ جنہیں بدلنے کی تگ و دو ہماری زندگی کا نصب العین نہ ہو۔ اگر بدلنے کا بہت شوق ہے تو کپڑے بدل لیجیے۔ انسان نہیں۔ یہ قتل عام تب ہی ختم ہو گا۔ نہ ہوا تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔