Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: انٹرنیٹ کی بندش سے لوگ بے روزگار

انٹرنیٹ نہ ہونے سے ایک کوریئر کمپنی کے 50 ملازم فارغ ہو چکے ہیں، فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ سال 5 اگست سے لگنے والے کرفیو کے باعث اب تک کاروبار میں دو ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس میں سب سے زیادہ وہ صنعتیں متاثر ہوئی ہیں جن کی آمدنی کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ’کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ’آج کے دور میں انٹرنیٹ کے بغیر تجارت کرنا ناممکن ہے۔‘
کمشیر چیبمر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
’معیثت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔‘

 

عالمی ڈیجیٹل رائٹس گروپ ’ایکسس ناؤ‘ کے ایشیا پالیسی ڈائریکٹر رامنجیت سنگھ چیما کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش کا اثر ذاتی تعلقات سے لے کر طبی سہولیات سب پر ہوا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’دہشت گردی سے بچنے کے لیے پوری آبادی کو سزا دینا ایک غیر معمولی اقدام ہے۔‘
اس بارے میں وزارتِ اطلاعات کا موقف جاننے کی کشش کی گئی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال 5 اگست کو انڈیا نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ انڈین حکومت کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدام جموں و کشمیر کو انڈیا میں ضم کرنے اور وہاں ترقی کے لیے اہم ہے۔‘ تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ’اب تک ترقی کے لحاظ سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔‘
کشمیر میں ایک کوریئر کمپنی کے باہے کھڑے دو افراد کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ نہ ہونے سے ہمیں پیکیج کے آرڈر نہیں آتے۔‘

انٹرنیٹ کی بندش سے کشمیر میں سیاحت کی صنعت بہت متاثر ہوئی ہے، فوٹو: اے ایف پی 

توصیف احمد کا کہنا تھا کہ ’صرف ہم دونوں اب دفتر آتے ہیں کیونکہ قریباً 50 لڑکوں کی نوکری ختم ہو چکی ہے۔‘
’اگر انٹرنیٹ جلد بحال نہیں کیا گیا تو میں بھی اپنی نوکری سے ہاتھ دھو سکتا ہوں۔‘
انٹرنیٹ کی بندش نے کشمیر کی ایک ایسی صنعت کو بھی متاثر کیا ہے جو کئی دہائیوں سے اس خطے کی معیثت کی ریڑھ کی ہڈی مانی جاتی ہے اور وہ ہے سیاحت۔
ہر سال انڈیا بھر سے لوگ برف سے ڈھکے پہاڑوں کا نظارہ کرنے کشمیر کے طرف جاتے ہیں۔

کشمیر میں چار ہزار سے زائد ملاحوں کے لیے فی الحال کوئی کام نہیں ہے، فوٹو: اے ایف پی

وہاں کی ’ڈل جھیل‘ کی کشتیاں بھی لوگوں میں کافی مقبول ہیں۔
تاہم کشمیر شکارا ایسوسی ایشن کے صدر بشیر احمد سلطانی کا کہنا ہے کہ’ اب چار ہزار سے زائد ملاحوں کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہے۔‘
محمد شفیع نام کے ملاح کا کہنا ہے کہ ’ہم بہت برے وقت سے گزر رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ تو اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی نہیں کر پاتے۔‘

شیئر: