انڈیا کی سپریم کورٹ نے کشمیر میں انٹرنیٹ کی غیر معینہ بندش کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ’عدالت نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ کی غیر معینہ بندش انڈیا کے ذرائع مواصلات کے قواعد کی خلاف ورزی ہے اور حکم دیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر کشمیر میں تمام پابندیوں پر نظر ثانہ کی جائے۔‘
سپریم کورٹ کے جسٹس نوتھلاپاتی وینکاٹا رامنا نے کہا ہے کہ ’انٹرنیٹ تک رسائی ایک بنیادی حق ہے۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اختلافِ رائے کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اکثر انٹرنیٹ کی بنش کے اقدام کو استعمال کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا صدارتی حکم نامہNode ID: 428211
-
کشمیر کی آئینی حیثیت:آرٹیکل 35 اے، آرٹیکل 370 کیا ہیں؟Node ID: 428216
-
کشمیر میں فون سروسز کی سوموار سے بحالی، انڈیا کا دعویٰNode ID: 437811
گذشتہ ماہ حکام نے انڈیا کے دارالحکومت دہلی، مشرقی ریاست آسام اور شمالی ریاست اتر پردیش میں بھی حکومت مخالف مظاہروں کے دوران انٹرنیٹ بند کر دیا تھا۔‘
یہ مظاہرے انڈیا کے شہریت کے قانون کے خلاف کیے جارہے تھے جس کو مسلم مخالف قرار دیا جا رہا تھا۔
ایکسس ناؤ نام کے ڈیجیٹل حقوق کے گروپ کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ کو بند کیے ڈیڑھ سو دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جو کسی بھی جمہوری علاقے کے لیے سب سے طویل دورانیہ ہے۔
انڈیا کی حکومت کا ماننا ہے کہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش امن بحال کرنے کے لیے اہم ہے۔
انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والے افراد کا ماننا ہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے انٹرنیٹ کی معطلی کی جانچ پڑتال ہو سکے گی، کیونکہ عدالت نے حکام کو انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق تمام آڈرز سامنے لانے کا حکم دیا ہے۔
دہلی کے ایک آن لائن جریدے کے ایڈیٹر نکھل پاہوا کا کہنا ہے، ’ یہ (فیصلہ) انٹرنیٹ کی بندش کی وجوہات پر روشنی ڈالے گا اور پھر اس کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کو چلینج بھی کیا جاسکے گا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ، ’اگر حکومت کے شفاف ہونے پر زور دیا جائے گا تو وہ جوابدہ ہوں گے۔‘
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ ہفتے ہسپتالوں میں انٹرنیٹ بحال کیا گیا تھا اور کچھ موبائل فون کام کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ کی بندش نے کشمیر میں لاکھوں لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں خلل ڈال دی ہے، جن میں کالجوں میں داخلے لینے سے لے کر ٹیکس ریٹرن جمع کروانے تک کے کام شامل ہیں۔
-
انڈین خبروں کے لیے ’’اردو نیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں