انسان بہت ظالم ہے، اپنے ہاتھوں ہی اپنی زندگی تباہ کر رہا ہے۔ قدرتی نظام میں انسان کی بے جا مداخلت نے اس دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق، منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور رابطہ کاری سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ترقی و طاقت حاصل کرنے کے علاوہ کائنات کو تسخیر کرنے کے باوجود آج کا انسان کسی بھی قدرتی آفت کے سامنے ہر بار بے بس نظر آتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھرمیں شدید موسمی حالات کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات عام انسان اور بالخصوص پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ ان واقعات کو قدرت کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات سے متعلق خبردار کرنے کا طریقہ بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس طرف اتنی سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی جتنی توجہ کا یہ مستحق ہے۔
پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں ہم چاروں موسموں کے مزے لیتے ہیں۔ یہ موسم ہمارے سماجی اور معاشی ماحول پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے سرخ، نیلا یا پیلا رنگ شدت اختیار کر جائے تو آنکھوں کو چبھنے لگتا ہے ویسے ہی موسمیاتی تبدیلی کے باعث موسم کے ان رنگوں میں شدت آ گئی ہے۔ اب جب گرمی پڑتی ہے تو اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ قحط زدہ کر دیتی ہے۔ پانی کے انتظار میں خشک لب لیے زمینیں بنجر ہو جاتی ہیں۔
سردی آتی ہے تو زندگی مفلوج کردیتی ہے۔ بہار اور خزاں کے رنگوں کی مدت چند روزہ ہوتی ہے۔ بارشیں جب ہوتی ہیں تو اتنی ہوتی ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتیں، کسان کے سونے کے دانے بکھیر جاتی ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ملک میں سماجی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ یہ سب ہمارا ہی بویا ہوا وہ بیج ہے جسے اب ہم کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی انسانی حقوق میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہر سال پاکستان ایک لاکھ 28 ہزار اموات ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ پاکستان میں 43 فیصد آلودگی کی وجہ ٹرانسپورٹ ہے۔
مزید پڑھیں
-
احتجاج جو ’سب سے اصلی لگا‘Node ID: 445611
-
’آمدنی اٹھنی، خرچہ روپیہ‘Node ID: 447681
-
برطانیہ کے ’روکھے پھیکے‘ انتخاباتNode ID: 448376
-
اسلام آباد میں کراچی کی سردیوں کی یادیں!Node ID: 448381
ایک قول تو سب نے سن رکھا ہے کہ ہماری سانسیں قیمتی ہیں لیکن موجود دورمیں ہمیں ہر سانس کی قیمت حقیقت میں چکانا پڑ رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کی لاپروائی نے ہمیں اس دوراہے پرلا کھڑا کیا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے جو سانس ہم بھرتے ہیں وہ روز بروز زہریلی ہوتی جا رہی ہے۔ آلودگی کے یہ پوشیدہ ذرات ہمارے پھیپھڑوں، خون اور جسموں میں گھس جاتے ہیں۔ یہ آلودگی دائمی بیماریوں اور پھیپھڑوں کے کینسر کے ساتھ ساتھ اموات کا سبب بھی بن رہی ہے۔
اب پاکستان کے بڑے شہر روز بروز سموگ کا شکار ہو رہے ہیں۔ لاہور کے بعد دوسرے شہروں میں بھی سموگ ڈیرے ڈال رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی فیکٹریوں اورٹرانسپورٹ کی وجہ سے اسلام آباد آلودگی کی زد میں آیا ہوا ہے۔ آئی پی پیز کا غیر معیاری فیول بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔
حال ہی میں سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے سروے رپورٹ جاری کی ہے جس کا عنوان ’ماحولیاتی تبدیلی کے کچی آبادی کے مکینوں پر اثرات‘ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے کچی آبادیوں کے مکینوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
حال ہی میں کرہ ارض پر دو ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ایمیزون کے جنگلات میں آگ لگنے کے بعد اس وقت آسٹریلیا کے جنگلات آگ کی لپیٹ میں ہیں اورایسی آگ جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ایک اندازے کے مطابق اس آگ نے اب تک 26 انسانی جانوں اور قریباً 50 کروڑ جانوروں کو نگل لیا ہے۔ آسٹریلیا میں موسمِ گرما میں اکثر گرمی کی شدت کی وجہ سے جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے تاہم اس مرتبہ اس آگ کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے شہری علاقوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔
حالیہ آگ تین لاکھ ہیکٹر پر لگی ہے اور 60 کلو میٹر طویل حصہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ آگ کا اثر نیوزی لینڈ کے گلیشیئرز تک بھی پہنچ گیا ہے جس کے باعث ان کا رنگ تبدیل ہو گیا ہےاور خدشہ ہے اس صورت حال میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا مرحلہ تیز ہو جائے گا جس سے سیلاب کا خطرہ بڑھے گا۔
موسمیاتی تبدیلوں پر تحقیق کا عمل جاری ہے مگر ان تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی روک تھام کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی پرعمل نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے پوری دنیا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
موسمیاتی ماہرین نے خبردار بھی کیا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار حد سے بڑھ جانے کے باعث موسمیاتی تبدیلی کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جس سے سمندری سطح میں اضافہ، گلئشیرز کے پگھلنے کے ساتھ موسم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2015 سے 2019 تک پانچ سال کا عرصہ کرہ ارض پر اب تک ریکارڈ کیے گئے گرم ترین سال ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس میں گیسوں کے مسلسل اضافے کو نہ روکا گیا تو 2100 تک عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوجائے گا۔
موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں خود کو قدرت کے نظام میں دخل اندازی سے روکنا ہو گا اورموسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی خرابی کی وجہ بننے والے عوامل پر قابو پانا ہو گا۔ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو پائیدار ماحول کے لیے ساز گار ہو۔ یورپ اور امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرک گاڑیوں کو لایا جائے۔ اگران گاڑیاں پرسیلز ٹیکس اوردیگر ڈیوٹیز ختم کردی جائیں تو یہ گاڑیاں ہمیں 55 سے 60 لاکھ میں پڑیں گی۔
ان گاڑیوں سے دو لاکھ کلومیٹر میں 25 سے 26 ہزار لیٹر ایندھن کی بچت ہو گی۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ پاکستان 60 فیصد ایندھن درآمد کرتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے باہر سے یورو فور آئل منگوایا جانا چاہیے ۔ 23 سال سے ملک میں پارکو کے علاوہ کوئی ریفائنری اپ گریڈ نہیں ہوئی۔ آئل ریفائنریز کی فوری اپ گریڈ یشن ضروری ہے۔ ہمیں ایمیزون اور آسٹریلیا کے جنگلات میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصانات سے سبق سیکھتے ہوئے خود کو بچانا ہو گا۔
موجودہ دور حکومت کا بلین ٹری سونامی کا منصوبہ بہترین منصوبہ ہے جسے مل کرکامیاب بنانا ہو گا تاکہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو ان تبدیلیوں کے اثرات سے محفو ظ بنایا جا سکے اور ہم جب چاہیں پاکستان کے پر فضا ماحول میں آنکھیں بند کر کے گہری سانس لے سکیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں